electricity 262

بریک ڈاؤن

بریک ڈاؤن
حامد میر
جنوری کا سرد موسم تھا۔ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب آدھا پاکستان سو چکا تھا، کچھ سونے کی تیاری میں تھا۔چند بڑے شہروں کے بڑے لوگ ویک اینڈ کی وجہ سے جاگ رہے تھے ۔اچانک پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا۔جو لوگ جاگ رہے تھے وہ پریشان ہوگئے اور انہوں نے سوئے ہوؤں کو جگانا شروع کیا۔

رات کی تاریکی میں طرح طرح کی افواہیں پھیلنے لگیں ۔افواہوں بھری یہ خوفناک رات ختم ہوئی تو اتوار کو ایک پریس کانفرنس ہوئی اور قوم کو بتایا گیا کہ کل رات کو بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز پر حملہ کیا گیا جس کے باعث ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کا نظام متاثر ہوا اور پاور بریک ڈاؤن ہو گیا۔

یہ واقعہ 2021ء کا نہیں بلکہ 2015ء کا ہے ۔جنوری 2015ء میں بالکل ویسا ہی پاور بریک ڈاؤن ہوا تھا جیسا جنوری 2021ء میں ہوا۔فرق صرف اتنا ہے کہ چھ سال پہلے جنوری کے آخری ہفتے میں پاور بریک ڈاؤن ہوا اور 2021ء میں جنوری کے دوسرے ہفتے میں پاور بریک ڈاؤن ہوا۔

دونوں مرتبہ ویک اینڈ تھا دونوں مرتبہ سرکاری حکام نے اتوار کے دن پریس کانفرنس کی۔

چھ سال پہلے وفاقی سیکرٹری برائے پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے پریس کانفرنس میں بلیک آؤٹ کی وجہ نصیر آباد میں دہشت گردوں کا حملہ بتائی اور کل اتوار کو وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے وزیراطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ گدو میں خرابی کے باعث تربیلا اور منگلا پر دس ہزار سے زیادہ میگاواٹ بجلی اچانک غائب ہو گئی۔

2015ء میں بھی سرکاری حکام کا پہلا بیان یہی تھا کہ گدو میں خرابی ہو گئی ہے ۔2021ء میں بھی گدو میں خرابی کو اصل وجہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ ناچیز خدانخواستہ عمر ایوب خان کے دعوے کو غلط قرار نہیں دے رہا۔

عمرایوب خان کو جو بتایا گیا انہوں نے وہ بیان کر دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے بریک ڈاؤن کی جو وجوہات بیان کی ہیں کیا انہیں ایک ایسی ریاست کے پڑھے لکھے شہریوں کیلئے قبول کرنا آسان ہے جو ریاست دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے؟

سال 2021ء کا آغاز صرف ہمارے پاور ٹرانسمیشن سسٹم میں بریک ڈاؤن سے نہیں ہوا ۔اس سال کے آغاز میں ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے میں بریک ڈاؤن بھی بے نقاب ہو گیا ہے۔ تین جنوری کو بلوچستان کے علاقے مچ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے گیارہ مزدوروں کو ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ذبح کر دیا گیا۔

ان غریبوں کے لواحقین نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم عمران خان خود کوئٹہ آکر انہیں قاتلوں کی گرفتاری کی تحریری یقین دہانی کرائیں اور جب تک وزیراعظم نہیں آئیں گے وہ اپنے پیاروں کی لاشیں دفن نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ اور کچھ وفاقی وزراء کو بھیج دیا اور یقین دلایا کہ ہزارہ برادری کے مظلوموں کو انصاف ضرور ملے گا لیکن ہزارہ برادری اور حکومت کے درمیان معاملات طے نہ ہو سکے۔

وزیر اعظم نے ضد لگالی کہ وہ اسی صورت کوئٹہ جائیں گے جب لاشوں کو دفنایا جائے گا۔ مچ میں قتل ہونے والوں کے لواحقین کے حق میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں دھرنے شروع ہو گئے۔

آٹھ جنوری کو وزیراعظم نے کہا کہ میں بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا آپ جس دن لاشیں دفنائیں گے میں اسی دن کوئٹہ آ جاؤں گا۔ چھ دن کے احتجاجی دھرنے کے بعد نو جنوری کو ہزارہ برادری نے اپنے پیاروں کی لاشیں دفنائیں اور اسی دن وزیر اعظم نے کوئٹہ جاکر ان کے لواحقین سے تعزیت کی۔

وزیر اعظم جیت گئے اور مقتولین کے مظلوم وارث ہار گئے لیکن گیارہ لاشوں کے ساتھ ساتھ احترام اور اعتماد کا وہ رشتہ بھی کہیں دفن ہو گیا جو ریاست اور عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔

اس رشتے کی اصل حقیقت وہ باتیں نہیں ہیں جو وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ میں مقتولین کے وارثوں سے کہیں۔ اس رشتے کی اصل حقیقت وہ نعرے ہیں جو مقتولین کے جنازے میں بلند کئے گئے۔ یہ نعرے ٹی وی چینلز پر تو سنائی نہیں دیئے لیکن سوشل میڈیا پر ضرور سنائی دیئے اور محب وطن عناصر نے نعرے لگانے والوں کو غدار قرار دیا۔

جنازے میں شریک ان ہزاروں ’’غداروں ‘‘ کے خلاف شوق سے مقدمے قائم کریں لیکن کوئی یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ اس ملک میں حب الوطنی کا بریک ڈاؤن کیوں ہو چکا ہے؟ غداروں کا ٹرن آؤٹ دن بدن بڑھتا کیوں جا رہا ہے؟

ایک زمانے میں ریاست کو ماں کا درجہ دیا جاتا تھا لیکن آج ماں کو اس کے بچوں سے کسی نے چھین لیا ہے۔ اصلی ماں کسی قید خانے میں پڑی ہے اور جو خود کو زبردستی اس ریاست کی ماں قرار دیتی ہے اسے بچے اپنی ماں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کیونکہ بچوں کو ماں کے روپ میں ممتا نظر نہیں آتی۔بچے اپنی ماں کے خلاف نہیں ہیں وہ تو اپنی اصلی ماں کی رہائی اور بحالی چاہتے ہیں۔

اصلی ماں کی رہائی آئین و قانون کی بالادستی سے مشروط ہے لیکن افسوس کہ آئین و قانون کا بھی بریک ڈاؤن کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ اس بریک ڈاؤن کے باعث طاقتور کے لئے الگ قانون ہے اور کمزور کیلئے الگ قانون ہے۔ اس بریک ڈاؤن کی وجہ سے سیاست اخلاقیات اور صحافت سچائی سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ معاملہ صرف سیاست و صحافت تک محدود نہیں۔

معاشرے کی اخلاقی قدروں کا بلیک آؤٹ ہو رہا ہے۔ ہر طرف اندھیرا چھا رہا ہے اور جو ان اندھیروں کی نشاندہی کرے اور بریک ڈاؤن کی اصل وجوہات بتانے کا مطالبہ کرے اسے ریاست کا دشمن قرار دیدیا جاتا ہے۔

غریبوں کی زمینوں پر قبضے کرنیوالے، ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر فراڈ کرنیوالے، ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنا کر بزنس کرنے والے اور مذہب کے نام پر نفرتیں پھیلانے والے محب وطن ہیں اور جو دہشت گردوں کی گرفتاری کی تحریری یقین دہانی مانگے وہ بلیک میلر بھی ہے‘ غدار بھی ہے۔ لیکن اس بریک ڈاؤن اور بلیک آؤٹ میں امید کی کچھ کرنیں باقی ہیں۔

وہ سب پاکستانی جو ریاست کے وجود میں ممتا تلاش کر رہے ہیں انہیں آئین و قانون کی بالادستی کیلئے متحد ہونا ہو گا اور اپوزیشن کے ان نام نہاد جمہوریت پسند لیڈروں سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا جنہیں ماں نہیں بلکہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے۔

ایک بڑے بریک ڈاؤن سے بچنا ہے تو ماں کو رہا کرانا ہو گا اور ماں کی رہائی کے لئے بچوں کو آپس میں متحد ہونا ہو گا۔