بدنما جیو پالیٹکس : جھوٹ اور منافقت! 531

بدنما جیو پالیٹکس : جھوٹ اور منافقت!

واشنگٹن سے سامنے آنے والی دو ویڈیوز دنیا کی واحد سپر پاور‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ کے تضادات اور جھوٹ کا پول کھول دیتی ہیں۔ پہلی ویڈیو سات جنوری کو امریکی وزارتِ خارجہ میں ہوئی ایک پریس کانفرنس کی ہے‘ جس سے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو خطاب کر رہے ہیں۔ پریس سے اس گفتگو میں انہوں نے وضاحت پیش کی کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون سے نشانہ بنانے کی وجوہات کیا تھیں۔پومپیو نے افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی ایرانی کوششوں میں مددگار مسلح گروہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے طالبان کا نام بھی لیا۔ اس کے علاوہ اس نے ”تورا بورا اور ملا داد اللہ گروپ‘‘ کا حوالہ بھی دیا۔ ملا داد اللہ گروپ کوئی زیادہ معروف گروہ نہیں ہے اور ان کی قوت اور ایران کے ساتھ ان کے روابط کی صورتحال اس وقت واضح نہیں ‘تاہم کیا ہم نہیں جانتے کہ تورا بورا مشرقی افغانستان میں ایک پہاڑی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2001ء میں چند دن کے لیے یہ اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ بنی تھی اور کیا ہم اس بات سے بھی آگاہ نہیں کہ ملا داد اللہ وہ طالبان کمانڈر تھا جسے نیٹو ‘امریکہ فوجوں نے مئی 2007ء میں ہلاک کر دیا تھا؟یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں یہ دونوں نام سننے میں نہیں آئے۔حیران کُن طور پر‘ پومپیو نے تنبیہ کی کہ ”ایران کے کام میں طالبان کی شمولیت کا نتیجہ افغان امن عمل کو نقصان کی صورت میں نکلے گا‘‘۔ پومپیو نے مزید کہا ”ایران نے امن کے لیے علاقائی و عالمی سطح پر پیدا ہونے والے اتفاق رائے میں شمولیت سے انکار کیا اور درحقیقت وہ وہاں مسلح گروہوں کو حمایت فراہم کرنے کے اپنے طویل گلوبل ایجنڈے پر عمل پیرا رہ کر اس امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔
کیا ابتدا میں پومپیو نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ قاسم سلیمانی کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ کیا اب ہمیں ان پر اعتبار کرنا چاہیے؟اور یوں بھی یہ بات کسی انکشاف سے کم نہیں۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ امریکیوں پر کب آشکار ہوا کہ طالبان ایرانیوں کے لیے کسی ”گندے‘‘ کام میں ملوث ہیں؟ کیا یہ وہی گروہ نہیں جس کو گزشتہ نومبر میں کیمپ ڈیوڈ مدعو کیا گیا تھا‘ جہاں انہوں نے اس امن معاہدے پر صدر ٹرمپ کے ساتھ دستخط کرنے تھے جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خصوصی امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے دن رات کاوش کی تھی؟ دوسری ویڈیو مشہور سابق امریکی جنرل ویسلے کلارک کا ایک سیمینار سے خطاب ہے۔ یہاں ان کے خطاب کا ٹرانسکرپٹ پیش کیا جا رہا ہیـ۔نائن الیون کے کوئی دس دن بعد پینٹا گان میں ایک جنرل نے کہا: ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم عراق سے جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ کیوں تو اس کا جواب تھا: میرا خیال ہے کہ انہیں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں سوجھ رہا۔جب پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں جو صدام کو القاعدہ سے منسلک کرتی ہوں؟ تو اس نے جواباً کہا: نہیں! اس طرح کی کوئی نئی چیز تو نہیں ہے‘ بس انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ عراق سے جنگ کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایسا ہے کہ ہمیں کچھ علم نہیں کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف کیا کریں‘ لیکن ہمارے پاس اچھی فوج ہے تو ہم حکومتیں گراسکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس واحد اوزار ہتھوڑا ہو تو آپ کو ہر مسئلہ کسی کیل جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔کچھ ہفتے کے بعد جب امریکہ افغانستان میں بمباری کر رہا تھا تواس نے کہا: مجھے امریکی سیکرٹری دفاع کے دفتر سے ابھی ایک میمو موصول ہواہے ۔ اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ کیسے پانچ برسوں میں ہم سات ملکوں پر غلبہ حاصل کریں گے‘اس کی ابتدا عراق سے کی جائے گی ‘اس کے بعد شام‘ لبنان‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ سوڈان اور آخر میں ایران کو انجام تک پہنچایاجائے گا‘‘۔ان دو ویڈیو ز سے ہم جو سبق اخذ کر سکتے ہیںوہ یہ ہیں۔
*جیو پولیٹیکل اور کمرشل مفادات سب سے مقدم ہیں‘اخلاقیات اور اصولوں کا یہاں گزر نہیں۔آج کے عالمی تعلقات میں یہی دو چیزیں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ کسی ایک ملک نے بھی ایرانی جنرل کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار نہیں دیا۔
*اسرائیل کو درپیش تقریباً تمام براہِ راست خطرات‘ شام‘ لبنان اور عراق‘دیوار کے ساتھ لگائے جا چکے ہیں۔
*اس وقت اسرائیل کے لیے واحد ممکنہ خطرہ ایران ہے اور اب اس کی باری بھی آئی لیجیے۔ امریکی پابندیاں اس کا معاشی کچومر نکال رہی ہیں اور وہ اس کے براہِ راست مہلک حملوں کی زد میں بھی ہے‘ اس کا ایک مظاہرہ ہم جنرل سلیمانی کی بغداد میں‘ ایک تیسرے ملک میں‘ ڈرون کے ذریعے ہلاکت کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔
*جیو پولیٹیکل مفادات کی ایک اور واضح شکل‘ فرانسیسی صدر میکروں کے پانچ دسمبر کو ویٹ فورڈ انگلینڈ میں نیٹو کی سالانہ تقریب میں اس اعلان سے سامنے آتی ہے کہ ”ہمارے دفاع کا نقطہ اشتراک چین ہونا چاہیے‘‘۔
یہ بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے سر کردہ اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران میں سے ایک رُکن ملک کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف تھا۔ یہ وہ ملک ہے جس نے 2019ء میں دنیا بھر سے تقریباً دو ٹریلین امریکی ڈالر کے مساوی اشیا درآمد کیں اور چالیس دوسرے ممالک کے لیے وہ سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اس کو ایک مشترک دشمن قرار کیونکر دیا جا رہا ہے؟ در اصل امریکہ 2017ء کی نیشنل سکیورٹی سٹریٹجی کے تحت اپنا یک قطبی مداخلتی ایجنڈا مسلسل آگے بڑھا رہا ہے۔اس حکمت عملی میں روس اور چین کو ”حریف‘‘اور امریکی غلبے کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ”ہانگ کانگ ہیومن رائٹس اینڈ ڈیموکریسی ایکٹ‘‘ (نومبر 2019ء) اور ایغور ہیومن رائٹس پالیسی ایکٹ ‘جس کی منظوری ایوان نمائندگان نے چار دسمبر کو دی‘ یہ دونوں قوانین حقوق اور عالمی قوانین کے متعلق امریکا کو حاصل تخصیص کی دلیل ہیں۔ ان قوانین کے ذریعے امریکہ ان خطوں میں سکیورٹی کونسل کے ایک مستقل رکن ملک کے مخالفین کو کھلے عام حمایت فراہم کرے گا۔
انڈیا اور امریکہ کے خارجہ و دفاع کے وزرا کے مابین ہونے والے 2+2مذاکرات (19دسمبر 2019ء) خارجہ امور میں امریکہ کے دہرے معیار کو آشکار کرتے ہیں۔ کشمیر میں مکمل لاک ڈائون جاری ہے اور انڈیا میں عوام کی بڑی اکثریت شہریت ترمیمی بل (سی اے اے) کے خلاف سڑکوں پر ہے‘ ایسے میں امریکہ اور انڈیا کے وزرا نے اپنی ساجھے داری کے بارے میں بیان جاری کیا کہ ” اس کی بنیاد باہمی اعتماد‘ دوستی اور جمہوری اقدار پر ہے۔ اس کی جڑیں آزادی‘ عدل‘ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے عزم کی اقدار میں پیوست ہیں‘‘۔ ان 2+2مذاکرات میں خصوصی طور پر پاکستان کا ذکر کیا گیا اور جن امور میں تعاون کے بارے میں با ت ہوئی ان میں (سائبر سپیس‘ میری ٹائم‘ تجارت) بالواسطہ مقصد چین کوحریف قرار دینا تھا‘ ایسا حریف جسے قابو کرنے کی ضرورت ہے۔
انڈیا کی آبادی کے اُس ساٹھ فیصد کو جو” سی اے اے‘‘ کے خلاف سارے ملک کی سڑکوں پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے‘ مکمل طور پر نظرا نداز کرتے وئے(بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے 2018ء کے انتخابات میں مقبول ووٹوں کا صرف 37فیصدحاصل کیا تھا) اور پانچ اگست سے کشمیر میں جاری مکمل لاک ڈائون کے باوجود …
10جنوری کو امریکی سفیر کینتھ جسٹر پندرہ رکنی سفارتی مشن کو‘ جس میں زیادہ تر امریکہ کے اتحادی ممالک کے نمائندے شامل تھے‘ لے کر محاصرہ زدہ سری نگر پہنچ گئے۔ یورپی یونین نے اس وفد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ یہ دورہ بھی قربت کے ان تعلقات کا مظہر تھا جو امریکہ اور انڈیا کے مابین پنپ رہے ہیں اورجن کا مقصد انڈیا کو ”ایشیا ئی محور‘‘بنا کر خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان کو دوبارہ ”خاص طور پر تشویشناک ملک‘‘ قرار دے دیا (دسمبر2019ء میں) کہ یہ ”مذہبی آزادیوں پر قدغن لگانے کی منظم کوششوںکو برداشت کرنے یا ان میں ملوث پایا گیا‘‘۔
پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرتے ہوئے اس پر یہ الزام امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی سفارش پر لگایا گیا۔اس طرح کی درجہ بندی میں ڈالے جانے کو کس طرح بلیک میلنگ قرار نہ دیا جائے کہ پانچ اگست سے محاصرے کے شکار نوے لاکھ کشمیریوں اور انڈیا کی ساٹھ فیصد آبادی کے ”سی اے اے‘‘ کے خلاف پُر زور احتجاج کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے صرف پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
مندرجہ بالا چند مثالیں جیو پالیٹکس کی بد نمائی آشکار کرتی ہیں۔واضح طور پر اس کی سمت کا تعین بلاک سے وابستگی اور کمرشل مفادات سے ہوتا ہے اور ہرگز اس کی جڑیں قانون کی حکمرانی کی علمی تشریح اور دیگر ممالک کی سلامتی اور بنیادی حقوق کے احترام میں پیوست نہیں ہیں۔ یہ مغرب کے تضادات کا مظہر اور مغربی ممالک جن اقدار بہت بڑے پرچارک ہیں‘ ان کے سراسر منافی ہے۔