ایک چیل 219

ایک چیل کی کہانی

ایک چیل کی کہانی
یہ اُس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اُرتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے
ڈاکٹر جمیل جالبی
بچو!یہ اُس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اُرتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے،ہوشیار اور تیز اُران اُرنے والے تھے۔
جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
آخر اُس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک،پھرتیلے اور تیز اُران کے حامل ہیں۔کوئی اور چال چلنی چاہیے۔کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔
چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔

تم بھی آسمان پر اُر سکتے ہو۔

میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔میں طاقتور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں،تم نہیں کر سکتے۔میں بلی کو حملہ کرکے زخمی کر سکتی ہوں ور اُسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔
تم یہ نہیں کر سکتے۔تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں ،تاکہ تم ہنسی خوشی ،آرام اور اطمینان کے ساتھ اُسی طرح رہ سکو۔جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔
میں تمہارے لئے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔
بھائیو!اور بہنو!میں ظلم کے خلاف ہوں۔انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔
دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے ،لیکن یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل وجان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔
جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھرتم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہو گی۔
چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے اُن باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کرکے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفا دار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

بچو!پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اُسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔
چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔
ایک دن صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل اُن کے پاس آئی۔
وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی”بھائیو!اور بہنو!میں تمہاری حکمران ہوں۔تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔
تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔
یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔میں آخر کب تک بغیر کھائے اور پیئے زندہ رہ سکتی ہوں؟میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤ،بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔
آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔اُس دن اگر اُس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔”یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوترکوپنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔
سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔
اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دجوچ کر لے جاتے۔اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔اُن کی آزادی ختم ہو گئی۔
وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے۔“ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟اب کیا ہو سکتا ہے؟
تو پیارے بچو جو بھی کام کرو اس میں عقل کا استعمال بے حد ضروری ہے۔