1,500

اچھی حکمرانی کے اصول

اچھی حکمرانی کے اصول
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی (صدر جماعت اہل حرم پاکستان)
عوام الناس پر حکمرانی تمام امور سے نہایت کٹھن اور مشکل ترین امر ہے۔اگر اللہ کی رحمت حکمران کے شامل حال نہ ہو تویہ حکمرانی ابتلاء وآزمائش بن کر حکمران کی دنیا اور آخرت کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے،یہ کانٹوں کا بچھونا ہے۔
میں ابھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف منسوب شہرہ آفاق کتاب نہج البلاغہ کا مطالعہ کررہا تھا۔آپکا مکتوب شریف جو آپ نے والی مصر مالک بن حارث نخعی جو مالک اشتر کے نام سے مشہور ہیں کی طرف لکھا۔یہ مکتوب نمبر 53 ہے۔اس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔پڑھ رہا تھا تو یوں لگا کہ گویا حضرت نے 2019 کے کسی مسلم حکمران کے لیے یہ نصائح تحریر فرمائے تھے۔وحی جس طرح زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہر دور کے لیے قابل عمل اور مفید ہوتی ہے بالکل اسی طرح الہام کی بھی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔
ذرا ملاحظہ کیجیے اور پھر موازنہ کیجیے کہ مالک اشتر کو کی گئی نصیحتیں آج کے حکمرانوں کےلیے بھی کتنی سبق آموز اورکامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں۔میں عربی عبارت نہیں لکھوں گا صرف اردو ترجمہ پر اکتفاء کرونگا تاکہ مضمون طویل نہ ہوجائے۔
خلیفۃ المسلمین وامام حرالمحجلین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم نےمالک اشتر کوفرمایا کہ خوف خدا کو لازم رکھیں،سب سے مقدم اللہ کی اطاعت ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی نے جن فرائض اور سنن کا حکم دیا ہےاسکی اتباع کریں کہ ان کی بجا آوری سےسعادت مندی اور انحراف سے بربادی آتی ہے۔تمہارادل ہاتھ اور زبان نصرت خدا میں جتے رہیں کیونکہ یہ اسکا وعدہ ہے کہ جو اسکی( اللہ) مدد کرے گا وہ اسکی مدد کرے گا،جو اللہ کی طرفداری کرے گا اللہ اسے عزت سے سرفراز فرمائے گا۔اے مالک۔۔! میں تمہیں جن علاقوں میں متعین کررہا ہوں ان علاقوں میں عادلوں کی حکومتیں رہی ہیں اور ظالموں کی بھی۔تمہارا طرز عمل ان حکمرانوں کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔یاد رکھنا بندگان خدا کی شناخت اچھے ذکر سے ہوتی ہے۔یہ ذکر اللہ ان کے لیے بندوں کی زبان پر جاری فرما دیتا ہے۔تمہارے پاس اعلی ترین ذخیرہ نیک اعمال کا ہونا چاہیے۔اپنی خواہشات نفس پر قابو رکھنا۔جو چیزیں حلال نہیں ان پر کنجوس ہوجاؤ یہی حق ہے۔ فرمایا: ہرگز ایسا نہ کہنا کہ مجھے حاکم بنایا گیا ہے اور میری اطاعت کروکیونکہ اس سے دل میں بہت بڑے فساد کے پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔حاکم ہونے کی وجہ سے تمہارے دل میں غرور مت پیدا ہو۔اس بات کا خیال رکھو کہ سب سے بالاتر اللہ ہے اسکی سب پر حکومت ہے۔اس سے تمہاری رعونت دب جائے گی اور کھوئی ہوئی عقل دوبارہ لوٹ آئے گی۔

Posted by ‎جماعت اہل حرم پاکستان‎ on Saturday, July 6, 2019

نااہل مشیروں سے دور رہنے کی نصیحت کی اور فرمایا: کسی بخیل کو مشورہ میں شامل نہ کرناکہ وہ آپکو دوسرے لوگوں پر فضل ومہربانی کرنے سے روکے گا،بزدل کو مشیر نہ بنانا کہ وہ تمہیں تمام امور میں کم ہمت کر دے گا۔نہ لالچی کو مشیر بناناکہ وہ تمہارےلیے کرپشن کے راستے سجا دے گا۔دیکھنا بخل،بزدلی اور لالچ الگ الگ چیزیں ہیں لیکن اللہ سبحانہ سے بدگمانی پیدا کرنے میں یہ سب ایک ہیں۔
وزراء اور مشیروں کے بارے میں کیاہی اعلی نصیحتیں فرمائیں،فرمایا: تیرا بدترین وزیر وہ ہوگا جوتم سے پہلے بدترین لوگوں کا وزیر رہ چکا ہوگااورگناہوں میں بھی انکامشیر رہ چکا ہوگا۔اس قسم کے لوگ آپ کے جلیس نہیں ہونے چاہیں کیونکہ ایسے لوگ گنہگاروں کے مددگار اور دوست ہوتے ہیں۔ان کے مقابلہ میں ایسے لوگوں کو رکھنا جو گنہگاروں کے ساتھی نہ رہےہوں اور ظالموں کا ساتھ نہ دیا ہو۔کڑوی بات کرنے والوں اور حق بات کہنے والوں کو ترجیح دینا۔پرہیزگاروں اور نیک لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنا۔
نیک لوگوں اور بدکاروں کو برابر نہ سمجھنا ورنہ نیک لوگ نیکی سے بےرغبت ہوجائیں گے اور بدکار بدکاری پر دلیر ہوجائیں گے۔ہر شخص کو اس کے عمل کے مطابق عزت دینا۔عوام الناس کے بارے میں جناب امیر المؤمنین نے یوں نصیحت فرمائی کہ رعایا کے حسن ظن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرناکیونکہ حسن ظن سے طویل الجھنوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔(اگر عوام کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو وہ اپنا سب کچھ حکمران پر وار دیتے ہیں۔اگر عوام پرظلم کیا جائے تو وہ بداعتماد ہو جاتے ہیں)۔ آپ نے فرمایا اچھائی کے راستوں کو برقرار رکھنا۔قابل اصلاح معاملات میں علماء ودانشوروں سے مشاورت میں رہنا۔فرمایا تمہاری رعایا میں تم سے دور اور ناپسندیدہ وہ ہوں جو لوگوں کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں۔ایک حکمران کے شایان شان یہ ہے کہ لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالے۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے عیبوں کو چھپاؤتاکہ اللہ تمہارے عیبوں کی پردہ پوشی کرے۔آپ نے ٹیکس دینے والوں کے مفادات کے تحفظ کا خیال رکھنے کا حکم دیا لیکن فرمایا کہ ٹیکس جمع کرنے سے زیادہ اہم زمینوں کی آباد کاری ہےکہ ٹیکس بھی زمین کی آباد کاری سے حاصل ہوتا ہے۔جو زمین آباد کیے بغیر ٹیکس وصول کرتاہے وہ ملک اور عوام کی تباہی کا سامان کرتا ہےاور کچھ ہی دنوں کے بعد اسکی حکومت ختم ہوجاتی ہے۔
آپ نے عوام کے مختلف طبقات کا اس دستاویز میں ذکر فرمایا اور کہا کہ اللہ نے تمام کے حقوق بیان فرمادیئے ہیں۔ساتھ یہ بھی فرمایاکہ ان تمام طبقات کا دارومدار تجار اور صنعت کاروں پر ہے۔یہ دیگر تمام طبقات کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔انکی کوششوں سے تمام طبقات آسودہ حال ہوجاتے ہیں۔لیکن کچھ تجار بہت تنگ نظر اور کنجوس ہوتے ہیں مال کو روک کر ریٹ بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں۔یہ عوام الناس کے لیے نہایت نقصان دہ ہے اور حکمرانوں کے لیے باعث بدنامی ہے۔ذخیرہ اندوزی کے راستوں کو روکنا کہ اللہ کے رسول نے بھی اس سے منع فرمایا ہے۔خریدو فروخت میں ترازو اور ریٹس بالکل صحیح ہوں۔
پسماندہ طبقہ کے بارے فرمایا کہ یہ وہ طبقہ ہے جسکا کوئی سہارہ نہیں ہوتا۔فرمایا ان میں سے کچھ تو ہاتھ پھیلاکر مانگ لیتے ہیں اور کچھ کے چہروں سے فکر واضح ہوتا ہے ان کے لیے ہر شہر میں غلہ کا بندوبست کرنا۔تمہیں ان کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔دولت کا نشہ تمہیں ان سے غافل نہ کردے۔
اس کے علاوہ آپ نے افواج، عدلیہ اور ریاست کے دیگر اداروں کے بارے میں بھی اپنی نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس دنیا میں بہترین اور کامیاب حکمرانی کے لیے اس سے اچھی اور مفید دستاویز بعد از قرآن وسنت کوئی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے حکمران جو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں ان کے لیے بطور خاص یہ دستاویز بہت مفید ہے۔ان درج بالا اصولوں کی روشنی میں وہ اپنے ٹریک کو دیکھیں کہ کیا ریاست مدینہ کی تعمیر کے لیے انکا سفر درست سمت ہے۔اگر نہیں ہے تو وہ اس کے مطابق چلیں یہی کامیابی کا راستہ ہے اور یہی مدینے والوں کا راستہ ہے،یہی راستہ مدینہ کی طرف جاتا ہے۔اللہ ہمیں اسی راستہ پر گامزن رکھے۔۔۔آمین۔