انسان کا مقصد حیات 366

انسان کا مقصد حیات

عبادت لفظ عبد سے نکلا ہے عبد عربی زبان میں غلام کو کہتے ہیں اس لحاظ سے عبادت کے معنی غلامی کے ہوتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالی کی غلامی کو عبادت کہتے ہیں۔اس پہلو سے ہماری سمجھ میں عبادت کا جو مفھوم آتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور جو چیزیں ہماری اختیار میں ہیں ان سب کو اللہ تعالی کے حکم کے تابع کردیں۔ دوسرے الفاظ میں اپنی اور ان کی فطرت کے مطابق ان چیزوں سے کام لیں۔ کیوں کہ فطری طور پر ہر چیز احکام خداوندی کا پابند ہے۔
اب ہمیں اس بات کے کہنے میں کوئی باک نہ ہوگا کہ ہر خیر کا کام دراصل اللہ کی عبادت ہے اور ہر بدی در اصل اللہ سے بغاوت ہے۔یعنی برے سیاستدان کے مقابلے میں نیک سیاستدان بن کے مقابلہ کرنا عبادت ہے۔ جھوٹے کے مقابلے میں سچا بننا عبادت ہے رشوت خور کے مقابلے میں اپنے پیشے میں ایمان داری کرنا عبادت ہے زانی کے مقابلے پاک دامن رہنا عبادت ہے ذخیرہ اندوز کے مقابلے میں سخاوت کرنا عبادت ہے غیبت کرنے والے کے مقابلے میں دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنا عبادت ہے۔ہر شر کے مقابلے میں خیر کو ترجیح دینا عبادت ہے۔رہے وہ عبادات جنہیں اللہ تعالی نے عبادت کے نام سے مقرر کیا ہے یعنی نماز روزہ زکاۃ حج وغیرہ یہ عبادات دراصل اس بڑی عبادت ”خیر”کیلئے تربیت گاہ ہیں ۔ یہ عبادات ہمیں تیار کرتے ہیں اور ہماری تربیت کرتے ہیں اس اصل عبادت کیلئے جو اللہ کو منظورو مقبول اور انسان کا مقصد حیات ہے۔
اس خیر کے مقابلے میں جو شر کو ترجیح دیتا ہے بدی کرتاہے در اصل وہ اللہ تعالی سے بغاوت کرتاہے اور اس باغی کے مقابلے میں جو نیک ہوتا ہے در اصل وہ اللہ تعالی کا مطیع و فرمانبردار ہوتاہے۔اب اس بات کو سمجھنے میں کوئی مشکل نہ ہوگا کہ اللہ تعالی کا اصل عابد وہ نہیں جو دنیوی معاملات سے نکل کر کسی ایک خاص جگہ میں بیٹھ کر تسبیح پڑھتا رہے۔بلکہ اصل عابد وہ ہے جو اللہ کے ان سرکش بندوں کے مقابلے میں جو شر کو ترجیح دیتے ہیں اور شر کو برپا کرنےکی کوشش کرتے ہیں، خیر کے نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس کشمکش کو ہم حق و باطل کی کشمکش کہتے ہیں۔ یعنی جو خیر کی بات کرتے ہیں وہ ہی حق و سچ کی بات کرتے ہیں۔ خود اللہ تعالی کے تابع ہوتے ہیں اور جو چیزیں ان کے اختیار میں ہیں انہیں بھی اللہ کے تابع کرتے ہیں۔ کیونکہ فطرتی طور پر انسان اللہ تعالی کا مطیع اور فرمانبردار ہے اور اس کائنات میں ہر چیز مسلم ہے یعنی اللہ تعالی کا فرمانبردار اور مطیع ہے ۔ خود انسان بھی اپنی فطرت میں مسلم ہے۔ کفر اس اختیار تک کرتا ہےجو اللہ نے اسے دی ہے۔ ورنہ وہ قانون خداوندی یعنی فطرت سے ذرہ برابر نکل نہیں سکتا ہے۔
اس بات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو اختیار اللہ تعالی نے انسان کو دیاہے اسکو اللہ کے قانون کے مطابق استعمال کرنے کو خیر کہتے ہیں۔ اور اس قانون کے خلاف ورزی کرنے کو شر یا بدی کہتے ہیں ۔اس بدی کو دوسری اصطلاح میں باطل کہتے ہیں۔ یعنی جو بدی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیئے کام کرتے ہیں وہ باطل ہیں۔اور جو خیر کو ترجیح دیتے ہیں نیکی کرتے ہیں وہ برحق ہیں۔آسان الفاظ میں ہم اسے یوں بیان کر تے ہیں کہ خیر و شر کا دوسرا نام حق و باطل ہے۔ حق و باطل کی کشمکش خیر و شر کی کشمکش ہے۔اس پوری بحث کے بعد ہمیں بآسانی معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالی کا اصل عابد وہ ہے جو حق کی گواہی دیتاہےاور اس پر ڈٹ جاتا ہے۔