انتخابی نتائج پر اعتماد کب ہو گا؟ 288

انتخابی نتائج پر اعتماد کب ہو گا؟

اے خالق سرگانہ
انتخابی نتائج پر اعتماد کب ہو گا؟
ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے کئی محاذوں پر الجھاؤ کا شکار ہے اِسے ہم قومی شناخت کا بحران بھی کہہ سکتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر بحث ہوتی رہتی ہے کہ محمد بن قاسم ہمارا ہیرو نہیں وہ تو بیرونی حملہ آور تھا گویا ہیرو مقامی ہونا چاہئے لیکن ہمارا دین کہتا ہے کہ جس دن آپ نے کلمہ پڑھ لیا اُس دن سے آپ ایک عالمی برادری یعنی مسلم اُمہ کا حصہ بن جاتے ہیں پھر باقی حوالے ثانوی ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح زبان کے معاملے میں بھی ہم کچھ انتشار کا شکار ہیں پورے پاکستان اور شاید ہندوستان میں بھی اُردو کسی علاقے کی زبان نہیں ہر علاقے میں تبادلہ خیال مادری زبان میں ہوتا ہے لیکن اُردو کو ہم نے قومی زبان بنا لیا ہے یہاں تک بھی ٹھیک تھا کہ ایک کثیرالقوم معاشرے میں اُردو رابطے کی زبان بن گئی لیکن پھر سرکاری زبان انگریزی ہے۔ انگریزی کی عالمی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہم نے دستور میں طے کیا کہ 15 سال کے عرصے میں ارُدو زبان سرکار دربار میں نافذ ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو رہا گویا دستور کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور عملی زندگی میں بھی ہم انگریزی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ قابلیت کا پیمانہ ہم نے انگریزی زبان کو ہی بنایا ہوا ہے۔

یہی معاملہ لباس کے سلسلے میں درپیش ہے۔قائداعظم اور لیاقت علی خان اگرچہ بیرونِ ملک سے فارغ التحصیل تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد انہوں نے شیروانی اور شلوار قمیض کو اپنایالیکن اُن کے بعد آہستہ آہستہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے میں انگریزی لباس مقبول ہو تاگیا پھر ذوالفقار علی بھٹو آئے تو انہوں نے لباس میں عوامی رنگ پیدا کرنے کیلئے شلوار قمیض کو رواج دیا۔ پھر ضیاء الحق آئے تو اسی شلوار قمیض کو عوامی کی بجائے اسلامی رنگ دے دیاگیا۔اُن کے جانے کے بعد ایک دفعہ پھر انگریزی لباس رواج پانے لگا لیکن اب وزیراعظم عمران خان نے شلوار قمیض کو ترجیح دی۔ انہوں نے اس کے ساتھ پشاوری چپل کو شامل کر لیا گویا ہر حکومت کے ساتھ ہمارے لباس میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے۔

سیاست میں بھی ہم نے بہت قلابازیاں کھائیں کبھی Eliteکی سیاست کبھی فوج کی سیاست اور کبھی عوامی سیاست، کبھی نظریاتی سیاست اور پھر خاندانی سیاست۔2013ء کے انتخابات میں نظریاتی جہت چھوڑ کر ترقیاتی کاموں کی ڈلیوری تک بات آ پہنچی۔ لہٰذا مسلم لیگ نے الیکشن جیت کر اس معاملے میں کچھ کارکردگی بھی دکھائی جیسے موٹرویز کی تعمیر اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ وغیرہ لیکن پی ٹی آئی نے ڈلیوری سے آگے بڑھ کر ایمانداری اور میرٹ کی سیاست کا بڑا بلند بانگ دعویٰ کیا لہٰذا بہت سارے لوگ اس خواب کے پیچھے لگ گئے کچھ مسلم لیگ کی طوالت اقتدار سے اکتا چکے تھے یوں پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار آ گئی لیکن تقریباً نصف ٹرم گزارنے کے بعد بظاہر یہی لگتا ہے کہ نہ ترقیاتی ایجنڈے پر کوئی نمایاں پیشرفت ہوئی اور نہ میرٹ کے خواب کی تعبیر سامنے آسکی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخاب اور ضمنی انتخابات نے عملی طور پر پی ٹی آئی کو اخلاقی زوال کے معاملے میں دوسری سیاسی پارٹیوں کے برابر لا کھڑا کیا اور وزیراطلاعات شبلی فراز صاحب نے تو یہ بیان دیکر معاملہ صاف کر دیا کہ ہم بھی وہ سارے ہتھکنڈے استعمال کریں گے جو اپوزیشن پارٹیاں استعمال کر رہی ہیں۔ گویا ہائی مارل گراؤنڈ کا دعویٰ تو حکومت نے خود ہی ختم کر دیا۔ آئندہ الیکشن کے لئے پی ڈی ایم کا نعرہ سول بالادستی ہے۔اب یہ وقت بتائے گا کہ اس نعرے کا انجام کیا ہو گا۔

انتخابی نعروں کے علاوہ سیاسی نظام کے بارے میں بھی اختلافی آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں۔ اگرچہ بابائے قوم نے تو واضح طور پر پارلیمانی نظام ہی پاکستان کے لئے بہتر سمجھا لیکن اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدارتی نظام ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے اور بعض لوگ تو اسے اسلامی طرز حکومت کے قریب ترین سمجھتے ہیں حالانکہ ہم صدارتی نظام کا تجربہ بھی کر چکے ہیں۔لیکن نظام خواہ کوئی ہو اس کا پہلا اور بنیادی قدم تو انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے ہمارے ہاں ہر انتخاب کے نتیجے کو اپوزیشن چیلنج کر دیتی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ آر اوز کا الیکشن ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ فرشتوں نے مداخلت کی ہے کبھی دھندکی وجہ سے پریذائیڈنگ افسر اغواء ہو جاتے ہیں لہٰذا اس طرح ہر آنے والی حکومت کی بنیاد ہی کمزور ہو جاتی ہے۔

ہم نے تجربے سے سیکھا ہے کہ ضروری نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا جج ہوبلکہ بیوروکریٹ بھی بہتر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اُسے انتظامی امور کا تجربہ ہوتا ہے لہٰذا اس دفعہ ایک بیوروکریٹ کو ہی چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا لیکن اس تبدیلی کے چند ماہ بعد ہی حکمران پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر پر نہ صرف عدم اطمینان کا اظہار کر دیا بلکہ خاصے سخت الزمات لگا دیئے۔ افسوس کہ حکمران پارٹی اداروں پر حملوں کے معاملے میں بھی دوسری پارٹیوں کی صف میں جا کھڑی ہوئی۔ اب حکومت نے الیکشن سے متعلق معاملات میں تبدیلی کیلئے اپوزیشن کو دعوت دی ہے لیکن کیا اپوزیشن تلخی کے اس ماحول میں حکومت کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہو گی؟سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم کب تک جمہوریت کی شاہراہ پر پہلے قدم یعنی انتخابات کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کر سکیں گے۔