مظہر برلاس 355

اناج گھروں کی محرومی

اناج گھروں کی محرومی
مظہر برلاس
لاہور کے گلزار ہائوس میں سابق وفاقی وزیر وقار احمد خان، ماں کی یادوں میں کھویا ہوا اداس بیٹھا تھا۔ فاتحہ خوانی کے بعد کہنے لگا ’’اب صرف والدین کی خدمت ایک ہی طریقے سے کر سکتا ہوں، اُن کی خدمت میں صرف دعا ہی پیش کر سکتا ہوں، میں نے اپنے دوستوں سے بھی یہی کہا ہے کہ اگر میرے لئے کچھ کر سکتے ہو تو میرے والدین کے لئے دعا کیا کرو، قرآن خوانی اور دعا سے بڑھ کر مرحومین کی اور کوئی خدمت نہیں ہو سکتی‘‘۔ پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقے اِس خاندان کو سیاست اور کاروبار کے حوالے سے جانتے ہیں۔ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز گلزار ہائوس ہوا کرتا تھا مگر اس خاندان کا ایک حوالہ ایسا ہے جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ سینیٹر گلزار احمد خان کی والدہ یعنی سینیٹر وقار احمد خان کی دادی نے کئی برس پہلے عام لوگوں کے لئے لنگر خانے کا آغاز کیا تھا، پھر یہ لنگر خانے بڑھتے گئے۔ یہ سلسلہ ڈیرہ اسماعیل خان اور لاہور سمیت کئی شہروں تک پھیل گیا، دو تین درجن لنگر خانے بن گئے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے کی عظمت کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں ہے، سخاوت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی کھانا کھلانا ہے۔ ہمارے خطے میں اناج بہت ہوتا تھا، لوگ تو خریداری بھی اناج ہی کے ذریعے کرتے تھے مگر وقت کی رفتار اور حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث سونا اگلتی زمینوں نے ضروریات پوری کرنے سے معذرت کر لی، حالات نے کاشتکار کی زندگی میں تنگی پیدا کر دی، آج کسان اپنے حق کے لئے مظاہرے کر رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملکوں بھارت اور پاکستان کا اناج گھر پنجاب ہی ہے۔ پہلے پاکستانی پنجاب کے ساتھ کھلواڑ ہوا، اب بھارتی پنجاب کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ پاکستانی پنجاب پر پچھلے چالیس برسوں سے کاروباری افراد کی حکومت ہے، جن کی ملوں میں اضافہ ہوتا گیا، اُنہوں نے دوسرے نمبر پر تاجر یعنی مڈل مین رکھ لیا، یہ دونوں طبقات کسانوں، زمینداروں کو لوٹتے رہے، حکومتی پالیسیاں بھی کاشتکار دشمنی پر مشتمل رہیں۔ چالیس سالہ محرومیوں کا سفر یہاں تک لے آیا کہ اب وہ اپنے حقوق کے لئے لاہور کی سڑکوں پر مظاہرے کرتا ہے۔ حکومتیں شوگر اور کھاد فیکٹریوں کو سبسڈی دیتی ہیں، یہ سب کچھ کسانوں کے نام پر ہوتا ہے مگر کسانوں کے لئے نہیں ہوتا۔ پنجاب میں بجلی، کھاد اور بیج کہیں پر کسان کو سہولت نہیں دی جاتی، زرعی آلات بنانے والے کسانوں کو الگ لوٹتے ہیں۔ کسانوں سے سستے داموں فصل اُٹھانے والا تاجر امیر ہو گیا اور بدقسمتی سے فصل اگانے والا غریب ہو گیا۔ کسان کو خوشحال بنایا جا سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں حکومتوں نے ایسا سوچا ہی نہیں۔ مثلاً زرعی ترقیاتی بینک یا پنجاب بینک کے ذریعے کسانوں کو سولر پینل فراہم کئے جا سکتے تھے تاکہ اُن کے گھروں اور ٹیوب ویلوں کو بجلی فراہم ہو جاتی، شوگر اور کھاد فیکٹریوں کو سبسڈی دینے کے بجائے یہ رقم کسانوں پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اِس رقم سے زرعی مراکز پر اعلیٰ بیج تیار کیا جا سکتا تھا۔ حکومت خریداری کے سرکاری مراکز قائم کرکے کسانوں کو پورا معاوضہ دے سکتی تھی، چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کے ذخائر بڑھائے جا سکتے تھے۔ پچاس سال پہلے اگر گوجرانوالہ، گجرات اور سرگودھا کے گھروں میں چرخہ تھا تو اِس کا مطلب ہے کہ اُن علاقوں میں کپاس پیدا ہوتی تھی۔ پہلے سرکاری سازشوں نے کپاس کو جنوبی پنجاب کے چند اضلاع تک محدود کیا پھر وہاں شوگر ملیں لگا دیں، آج ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بیرونی دنیا سے کپاس منگوانے پر مجبور ہے۔ پنجاب میں پھلوں کے باغات لگائے جا سکتے تھے، ہمارے خوشبودار پھول بھی فرانس جا سکتے تھے۔ ہمارے ملک میں روزانہ اڑھائی کروڑ لیٹر دودھ کی ضرورت ہے مگر ہماری پیداوار ڈیڑھ کروڑ لیٹر ہے، باقی ایک کروڑ لیٹر پتا نہیں ہمیں صابن گھول کر پلایا جاتا ہے یا سوڈا؟ اگر ہماری حکومتیں توجہ دیتیں تو ہم دودھ، دہی، مکھن اور گوشت میں نہ صرف خود کفیل ہو سکتے تھے بلکہ برآمد بھی کر سکتے تھے۔ اب بات کرتے ہیں بھارتی پنجاب کی۔ پنجاب پورے ہندوستان کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے مگر اب وہاں بھی کسان دشمن پالیسیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ متنازعہ قوانین سے کسانوں کو باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی لئے پانچ لاکھ کسان دلی میں سراپا احتجاج ہیں، کسانوں کی تقدیر کا وارث کوئی امبانی کیسے بن سکتا ہے؟ گولڈن ٹیمپل کے بعد سکھوں کی طرف سے آج کل سب سے بڑا احتجاج ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی حکومتوں نے ہمیشہ سکھوں کے ساتھ دشمنی کی، ہندوانہ سوچ ہندوستان کا اناج گھر تباہ کر رہی ہے۔ سکھوں کی طاقت کو کم کرنے کے لئے مشرقی پنجاب میں سے صوبے نکالے گئے، ہماچل پردیش اور ہریانہ دو مکمل صوبے نکال کر پنجاب کا کچھ حصہ دلی اور کچھ حصہ راجستھان کو دے دیا گیا۔ گوردواروں کی بےحرمتی کی گئی، 1984ءسے لے کر 1994ءتک دس لاکھ سکھ نوجوانوں کو مارا گیا۔ اِن زیادتیوں کے باوجود مشرقی پنجاب کے کاشتکار نے خوب محنت کر کے بھارت کا پیٹ پالا۔ اِسی محنت کے طفیل پنجاب کا کسان خوشحال رہا۔ پتا نہیں اب مودی کی کسان دشمن پالیسی کیا گل کھلاتی ہے۔ ویسے اگلے چار پانچ برسوں میں بھارت تیز رفتاری سے بنجر ہو جائے گا۔ بھارت نے پاکستان کی طرف سے آنے والے دریائوں پر ڈیمز بنا کر پاکستانی زراعت کے خلاف سازش کی تھی، اب بھارت کے خلاف ایسا کام ہو رہا ہے کہ اُس کے حصے میں صرف پشیمانی آئے گی۔ تبت کو ایشیا کا واٹر بینک کہا جاتا ہے۔ راوی، ستلج، بیاس کا پانی وہیں سے آتا ہے، ہندوستان کو سیراب کرنے والے تمام دریا تبت ہی سے آتے ہیں، چین تبت میں 37ڈیم بنا رہا ہے۔ ایک بڑا ڈیم براہمہ پترا پر بھی بنا رہا ہے۔ براہمہ پترا وہ دریا ہے جو بھارت کی سات ریاستوں کو سیراب کرتا ہے۔
دوستو! کسان دشمن پالیسیاں بنانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ روس کے پاس سائنس دان بہت تھے مگر جب وہاں غذائی بم پھٹا تو ہر طرف تباہی اور بربادی پھیل گئی تھی، ہمیں بربادیوں سے بچنے کے لئے کسانوں پر توجہ دینا ہو گی۔ بقول افتخار عارف؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے