اوریا مقبول جان 245

اسٹیبلشمنٹ کے اصل دست و بازو

اسٹیبلشمنٹ کے اصل دست و بازو
اوریا مقبول جان
اگر جدید دنیا کی تاریخ سے یہ سوا ل پوچھا جائے کہ تقریباً ایک سو سال سے قائم شدہ قومی ریاستوں میں اسٹیبلشمنٹ عوامی قوت سے زیادہ طاقت ور ہے ، تو اس کا جواب نفی میں آئے گا۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں ایسی تحریکیں اٹھیں جن کے پیچھے ایک واضح عوامی اکثریت موجود تھی تودنیا کے کسی ملک کی اسٹیبلشمنٹ اس کا سامنا نہیں کر سکی۔ کچھ دیرتک وہ عوام پر ظالمانہ اور جابرانہ ہتھکنڈوں کا استعمال کرتی ہے، لیکن پھر اس عوامی سیلاب کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ ہمارے خطے میں اس کی تازہ ترین مثال چالیس سال پہلے آنے والا ’’انقلابِ ایران‘‘ ہے جس میں صرف چھ کروڑ عوام کی طاقت کے سامنے سات لاکھ فوج ، دو لاکھ پولیس اور ایک خفیہ ایجنسی ’’ساواک‘‘ کے پانچ ہزار اہل کاروں کی قوت خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی تھی۔ یہ انقلاب کی تحریک بھی کسی ایک نظریے میں بہت بعد میں تبدیل ہوئی، آغاز میں شاہِ ایران کی دشمنی میں کٹر کیمونسٹ ’’تودہ‘‘ پارٹی اور کٹر مذہبی علما ایک ساتھ اکٹھے ہو کر ایران کی سڑکوں پر نکلے تھے۔ پاکستان میں ایسی واحد مثال 1977ء کی تحریک ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اٹھی تھی۔ تقریباًچارہ ماہ کے اندر اس تحریک نے پورا ملک جام کر کے رکھ دیا تھا۔ تین سو کے قریب لوگ اس میں قربان ہوئے ، پاکستان کے ہر قصبے اور کوچے میں جلوس نکل رہے تھے اور ہر جلوس کو سنبھالنے کے لئے حکومت کے پاس چند سپاہیوں سے زیادہ نفری میسر نہ تھی۔ تین شہروں میں مارشل لالگایا گیا تو لوگوں کا امڈتا ہوا ہجوم اس قدر بے قابو تھاکہ وہاں موجود فوج نے اس لئے گولی چلانے سے انکار کیا کیونکہ اس کے بعد ہر کسی کو اپنا انجام واضح نظر آرہا تھا۔ فوج کی قیادت صرف چند دن پہلے رتن سینما لاہورمیں ان مسلح غنڈوں کا انجام دیکھ چکے تھے، جنہیں پیپلز پارٹی نے سینما کی چھت پر کھڑا کر کے جلوس پر فائرنگ کروائی تھی اور عوام برستی گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کی جانب بڑھے تھے اور ان کو مار کر لاشیں نیچے گرا دیں تھیں۔غم و غصہ کا یہ عالم ہو تو اسٹیبلشمنٹ کی پوری قوت بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔ عوامی احتجاج کا سب سے پہلا سامنا پولیس کو کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس قت تقریباً پندرہ سو پولیس اسٹیشن ہیں اور تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب پولیس کے ملازمین ہیں، یعنی تقریباً ہر پولیس اسٹیشن کوپورے علاقے کے لئے دو سو چالیس افراد میسر ہیں جن میں انسپکٹر جنرل سے لے کر نیچے تک تمام افسران بھی شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف ایک لاکھ پولیس والے ایسے ہیں جنہیں عوامی احتجاج کی صورت میں ڈیوٹی پر لگایا جاسکتا ہے۔ اگر پندرہ سو پولیس سٹیشنوں میں ہر اسٹیشن کے صرف ایک قصبے میں ہی روزانہ احتجاج شروع ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ ساٹھ سپاہی اس کو سنبھالنے کے لئے متعین ہو سکتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بڑے احتجاج ہوتے ہیں جن کے لئے وہ نفری جمع کی جاتی ہے، اس لئے چھوٹے شہروں کے حصے میں چند بیچارے پولیس والے آتے ہیں جن کے پا س آنسو گیس اور نہ پتھراؤ سے بچنے کے لئے کوئی شیلڈ۔ معاملہ خراب ہو، پولیس کے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر پیرا ملٹری فورس کی نوبت آتی ہے جس میں رینجرز، فرنٹیئر کور، فرنٹیئر کنسٹبلری اور کوسٹ گارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی اکثریت پاک بھارت تین ہزار کلومیٹربارڈر پر تعینات ہے اور طویل کوسٹ لائن کی نگرانی میں مصروف ہے۔ انہیں عوامی احتجاج کے مقابل پر لاکر مسلسل کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف بدترین حالات میں کسی بڑے نقصان سے بچنے کیلئے بلائے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھی ان کی وہ قوت جو بڑے شہروں اور تنصیبات وغیرہ پر لگائی جاسکتی ہے وہ صرف ایک لاکھ کے قریب ہے۔ آخری قوت فوج ہے اور اسے بھی اس طرح ملک گیر عوامی احتجاج کے مقابلے میں کھڑا کرنا ملک کو مکمل طور پر ایک ایسی کشمکش کا شکار کرنا ہے جس کا انجام خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا مرحلہ صرف ایک ہی دفعہ آیا اور فوج نے 1977ء میں عوام کے سامنے آکر تحریک کو قوت سے روکنے کی بجائے دانشمندی سے یہ فیصلہ کیا کہ عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے فوراً بھٹو کی حکومت بدل دی جائے جس نے عوام کے جذبات کو سرد کرنے میں مدد کی۔ اس کے علاوہ جب کبھی بھی پاکستان میں کوئی تحریک چلی وہ چند علاقوں یا مخصوص گروہوںتک محدود تھی۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک 1953ء میں لاہور تک محدود تھی، اس لئے وہیں مارشل لاء لگایا گیا، لیکن 1974ء میں جب یہی تحریک ملک گیر ہوگئی اور ہر بستی، کوچہ و قریہ میں جلوس ، جلسے اور مظاہرے ہونے لگے تو پھر اس عوامی طوفان کا بھٹو جیسے مقبول رہنما اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سامنا کرنا مشکل ہو گیا۔ مشرقی پاکستان واحد مثال ہے جہاں، اسٹیبلشمنٹ کو عوامی اکثریت کا سامنا کرنا پڑا تھا،جس کا نتیجہ ایک پورے خطے کی علیحدگی کے طور پر نکلا۔ کوئی بیرونی طاقت یا دشمن آپ کے ملک میں اپنا اثر و نفوذ نہیں بنا سکتا جب تک وہاں اس کے لئے ہموار عوامی فضا موجود نہ ہو۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی مرحلہ ایسا نہیں آیا جب اسٹیبلشمنٹ کی قوت عوامی طاقت سے زیادہ ہو اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جب بھی براہ راست مداخلت کی اسے وسیع پیمانے عوامی پر پذیرائی ملی اور اس نے جب بھی پس پردہ مداخلت کی تو اسے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی واضح اور پس پردہ حمایت حاصل رہی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسٹبلشمنٹ ایک گھنٹہ بھی اپنا براہ راست اقتدار قائم رکھ سکتی اور نہ ہی پس پردہ رہ کر اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکتی ۔ ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر پرویز مشرف کے مارشل لاتک چار دفعہ براہ راست مداخلت ہوئی، لیکن پورے ملک میں ایک بھی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی ۔ جس گرم جوشی سے ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاؤں کو خوش آمدید کہا گیا، اس کی مثال تو سیاسی پارٹیوں کے الیکشن جیتنے پر بھی نہیں ملتی۔ باقی دو مارشل لاؤں کو سیاست دان خوش آمدید کہتے رہے ۔ یحیٰ خان کے مارشل لا کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے خوش آمدید کہا اورپرویز مشرف کے مارشل لا کو قائد عوام کی بیٹی بے نظیر نے خوش آمدید کہا ۔ نہ کوئی ایوب خان کا حامی سڑکوں پر نکلا اور نہ ہی نوازشریف کے وفادار لاٹھیاں کھانے میدان میں اترے۔یہ تھا براہ راست مداخلت کا حال۔ پس پردہ مداخلت ہمیشہ اس لئے کامیاب رہی کیونکہ اس کی حمایت میں پاکستان کے سیاست دان ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے دست و بازوبن گئے۔ پہلی براہ راست مداخلت 1958ء میں ایوب خان نے کی اور پھر اسے جمہوری بنانے کے لئے 1962ء کا آئین بنایا گیا۔ اس نے آئین کے تحت بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت قومی اسمبلی کے الیکشن کروائے ۔ یہ پاکستان کی تیسری اسمبلی تھی جس میں 156ارکان تھے۔آئین بناتے وقت ایوب خان کے ساتھیوں سے ایک فاش غلطی ہو گئی اور وہ یہ تھی کرسیٔ صدارت پر موجودہ شخص صدارتی الیکشن نہیں لڑ سکتا تھا۔ صدر بننے کے لئے ایوب خان کو کرسیٔ صدارت چھوڑنا پڑتی۔اب اسٹیبلشمنٹ آئین میں ترمیم چاہتی تھی تاکہ ایوب خان صدر ہوتے ہوئے الیکشن لڑ سکے ۔ اس کیلئے دوتہائی اکثریت درکار تھی اور حکومت کے پاس صرف دو ووٹ کم تھے۔ ایسے میں پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے پہلے دست و بازو اپوزیشن کے دو اہم سیاست دان اوراراکین اسمبلی بنے۔ ایک مولانا فضل الرحمٰن کے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود جو NW-6 ڈیرہ اسمٰعیل خان سے منتخب ہوئے تھے اور دوسرے چوہدری محمد افضل چیمہ جو NW 35 لائل پور سے منتخب ہوئے تھے۔ ان دونوں نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومتی ترمیم کا ساتھ دیا اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے راستہ ہموار کیا۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی پہلی پس پردہ مداخلت کی فتح تھی جو اپوزیشن کے دو اہم سیاستدانوں کی مدد سے ممکن ہوئی۔ (جاری ہے)