اخلاقی نظام کی قدرین 333

اسلام کی اخلاقی قدریں

اسلام کی اخلاقی قدریں
مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی ( جنرل سکریٹری ورلڈ اسلامک مشن لندن)
انسان اس عالم رنگ و بو میں اسباب و وسائل حیات کا محتاج بنا کر بھیجا گیا اور اس کا یہی احتیاج اس کو ایک دوسرے سے انتہائی شدید وابستگی پر مجبور کرتا ہے اور پھر یہ وابستگی انسان کے اس جذبۂ انس و محبت کو ابھارتی ہے جس کے بغیر انسانیت کا تصور بھی ناممکن ہے تعلقات کی دنیا میں انسان کے اسی جذبۂ انس و محبت کو اخلاق حسنہ کا محرک کہتے ہیں جس کے ذریعہ انسان ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے اور اس طرح سے انسان کا وہ نظامِ تعاون و تمانع وجود پذیر ہوتا ہے جو انسانیت کی اِساس ہے اب اس صورت میں اگر ہم یہ کہیں کہ اخلاق حسنہ ہی انسانیت کی روح اور اس کی دوسری تعبیر ہیں تو ہمارا یہ دعویٰ واقعے کے عین مطابق ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ انسان اگر پھول ہے تو اخلاق حسنہ رنگ و بو،انسان اگر مجسمہ ہے تو اخلاق حسنہ اس مجسمے کی روح، انسان اگر ایک صورت ہے تو اخلاق حسنہ اسی صورت کی زندہ حقیقت،جس طرح سے ایک پھول بغیر رنگ و بو کے بیکار، ایک جسم بغیر روح کے نا قابل التفات اور ایک صورت بغیر حقیقت کے زندہ اور متحرک نہیں رہ سکتی ویسے ہی ایک انسان بغیر اخلاق حسنہ کے کاغذی تصویر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،یہی وجہ ہے کہ حیات انسانی کے تمام شعبوں پر اخلاق حسنہ کے انمٹ اور لا فانی نقوش ثبت ہیں،خواہ وہ حیاتِ انسانی کی اطاعت و عبادت کا شعبہ ہو ،خواہ اقتصادیات و معاشیات کا،خواہ سیات و مدنیت عامہ کا شعبہ ہو،خواہ معاشرت و معاملات کا ،ان تمام شعبہائے حیات کو اخلاق سے گہری وابستگی ہے …… ا خلاق حسنہ ان تمام شعبوں کی بقا ء اور ترقی کی ضامن اور اخلاق رذیلہ ان کی تباہی و تنزلی کی محرک ہے۔اخلاق حسنہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ جس کی عظمت کا انکار ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک معاشرئہ انسانی کے ایک فرد نے بھی نہیں کیا ،آج ہر شئی کے متعلق انسان کی دو رائیں ہیں ،کوئی کہتا ہے زمین متحرک اور گول ہے ،کوئی کہتا ہے زمین ساکن اور مسطح ہے ،کوئی کہتا ہے کہ آسمان انسان کی حد نظر کا نام ہے ،کوئی کہتا ہے ایک ناقابل خرق التیام جسم ہے ،کوئی کہتا ہے انسان مجسمئہ شہوانیت ہے ،کوئی کہتا ہے انسان مجسمۂ روحانیت ہے اور کوئی کہتا ہے کہ ان دونوں کے حسین امتزاج کا نام ہے ،کوئی انسان، روح کو ایک خارجی حقیقت تصور کرتا ہے ،کوئی محض مادے کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتا ہے مگر اخلاق اور صرف اخلاق ایک ایسی قوت ہے جس کے بارے میں دنیا کا کوئی انسان اختلاف کی جرأت نہیں رکھتا ۔اخلاقی قدروں کا حامل تو بہرحال اخلاق کی تعریف کریگا لیکن اگر آپ کسی ایسے انسان سے سوال کریں جو معاشرے کا سب سے گرا ہوا فرد ہو جس کا کردار اخلاقی کمزوریوں کا مجموعہ ہو تو وہ بھی یہی کہے گا کہ سچائی امانت ،دیانت،سخاوت ، صبر و شکر ،عفو و درگزر،حلم و بردباری یہ سب اچھی عادتیں ہیں اور جھوٹ و فریب اور مکاری،کینہ وظلم، حسد وچغلی یہ سب بری عادتیں ہیں۔اخلاق ایک ایسی طاقت ہے جس کے آگے ہر طاقت کو سرنگوںہونا پڑتا ہے وہ اپنے اندر ایک حیرت انگیز تسخیری صلاحیت رکھتا ہے جس کے ذریعہ سے وہ شے کو مسخر کرلیتا ہے ،جس مقام پر ساری مادی طاقتیں جواب دے جاتی ہیں وہاں صرف اخلاق کے ذریعہ سے انسان غالب و سرفراز ہوتا ہے ،انسان اپنی مادی طاقتوں کے سہارے پیروں میں زنجیریں تو پہنا سکتا ہے مگر دلوں کو نہیں جیت سکتا مگر اخلاق ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ سے انسان صاحب خلق کے پاس خود پابہ زنجیر ہو کر چلا آتا ہے اور اپنی متاع جان نچھاور کردیتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں اسلام تلوار سے پھیلا ،میں عرض کروں گا ہاں اسلام تلوار ہی سے پھیلامگر لوہے کی صیقل شدہ تلوار سے نہیں جو انسان کا خون چاٹ کر اسے فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے بلکہ اخلاق کی بے مثال تلوار سے ،جو انسان کے قلب و جگر سے پار ہوکر اس کو منزل حیات سے آشنا کرتی ہے اور اس کو انسانیت کا صحیح مفہوم سمجھاتی ہے۔

اسلام میں اخلاق حسنہ کا مقام: یوں تو تمام مذاہب ِعالم نے اخلاق کی تعلیم دی ہے اور دنیا کے سامنے اخلاق کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور پیش کیاہے مگر اخلاق کی جو ہمہ گیر تعلیم اسلام دیتا ہے دنیاکے سارے مذاہب اس سے خالی ہیں،اسلام نے اخلاقِ حسنہ کوبلند ترین مقام عطا فرمایا یہاں تک کہ آقا ئے دو جہاںا نے ارشاد فرمایا کہ میری بعثت کا مقصد اخلاق کی تکمیل ہے۔ ارشاد ہوتاہے:’’ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الَاَخْلاَقِ‘‘ یعنی میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہو ںتاکہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں،حدیث پاک کے الفاظ بتا رہے ہیں کے اسلام سے پہلے اخلاق حسنہ کی تکمیل نہیں ہوئی تھی بلکہ ہر ہر قوم کوان کی محدود معا شرتی زندگی کے مطابق انہیں اخلاقی قدروں سے روشناس کرایا گیا تھا مگر چونکہ آقائے دوجہاں کی ذات اقدس پردین پاک کی تکمیل ہوئی اسی لئے آپ کو دنیا کا سب بڑا معلّمِ اخلاق بنا کر بھیجا گیا۔

قران کریم ارشاد فرماتا ہے’’ وَاِنّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ ‘‘یعنی آپ ہی خلق عظیم کی بلندیوں پر فائز ہیں پھر اس عظیم ترین معلّم اخلاق ا نے اخلاق کی ہرہر قدر کو نکھارا اور سنوارا اور دنیاکے سامنے ایک مکمّل ترین نظامِ اخلاق کی صورت میں پیش فرمایا جس کو دیکھ کر دنیا کے ہر با شعور نے اس کی عظمت کا اعتراف کیا،آقائے دو جہاںا نے فرمایا: راستے سے تکلیف دہ شئے کا ہٹا دینا بھی ایمان کا جزہے نیز آپ نے ہرمسلمان کو حکم فرمایا کہ وہ ان اخلاق حسنہ اور اوصاف جمیلہ کو اختیارکریں جو اسلام کی روح اور معیا رتکمیل ایمان ہیںچنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’لایبلغ الانسان حقیقتہ الایمان یحبب للناس مایحبّ نفسہ من الخیر‘‘یعنی انسان ایمان کی حقیقت کو اس وقت پائے گا جب وہ لوگوں کیلئے بھلائی میں سے وہی پسند کرے جو اپنے نفس کیلئے پسند کرتا ہے۔

آقائے دو جہاںﷺ نے اخلاق حسنہ کی ہر ہر قدر کو اسلام کیلئے مشروط فرمایا،آپ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں بعض جگہ آپ نے اخلاق حسنہ کو جنت میں جانے کا واحد ذریعہ قرار دیا ،آپ نے ارشاد فرمایا :تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک مو من نہ بنو اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک آ پس میں محبت نہ کرو ،کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتا دوں کہ اگر تم اسے اختیار کر لو تو باہم محبت سے رہنے لگو ؟آپس میں سلام کو رواج دو حتیٰ کہ جب آپ کسی قوم سے بیعت لینے اوراطاعت کا اقرار کراتے تواخلاقی قدروں ہی کی پابندی کا حکم دیتے چنانچہ اسلام کی سب سے پہلی اجتماعی بیعت ، بیعت عقبہ اولیٰ ہے جس کی شرائط مندرجہ ذیل اخلاقی قدریں تھیں ۔

(۱)ہم خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور شرک نہ کریں گے ۔

(۲)ہم چوری اور زنا کاری نہ کریں گے۔

(۳)ہم اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے ۔

(۴)ہم کسی پر تہمت نہ لگائیں گے نہ عیب کریںگے۔

(۵)ہم اپنے نبی کی اطاعت کریں گے۔

آپ نے اخلاقی قدروں کے حامل کو مومن اور بد اخلاق کومنافق فرمایا۔ چنانچہ آپ نے متعددمقامات پر ارشاد فرمایاکہ مومن وہ ہے جووعدہ وفا کرے جب گفتگوکرے تو اس کی زبان سے سچ ہی نکلے،جب اس کو امانت دار بنایا جائے تو امین ثابت ہو۔آپ نے ارشاد فرمایا جو بے وفائی کرے ،جھوٹ بولے،خیانت کرے ،غیبت اور چغلی کرے وہ منافق ہے۔حتی کہ بغیر محاسن اخلاق کو اپنائے ہوئے محض نماز اور روزہ بھی کارآمد اور موجب نجات نہیں ہے ۔سرکار دو عالم ا نے صحابۂ کرام سے ارشاد فر مایا :کیا تم جانتے ہو کہ میری امت کا نادار و مفلس شخص کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جس کے پاس مال نہ ہو،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ وہ شخص جو نماز اور روزہ لیکر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا مگر اس نے لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے تھے ،اموال غصب کئے تھے، غیبت اور چغلی کی تھی،خون نا حق کیا تھا ،پس جب اللہ کی بارگاہ میں اس کے خلاف لوگ فریاد کریں گے تو اس کے سارے اعمال فریادیوں کو دے دئے جائیں گے اور اس کو جہنم میں ڈال دیا جائیگا۔

ایک دفعہ ایک صحابی نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے پڑوس میں دو عورتیں ہیں،ایک تو شب و روز عبادت کرتی ہے مگر پڑوس والے اس کی بداخلاقی سے سخت نالاں ہیں اور دوسری محض فرائض و واجبات ہی ادا کرتی ہے مگر پڑوس والے اس سے خوش ہیں ۔آپ نے ارشاد فرمایا :جس کے پڑوسی خوش ہیں وہ اچھی ہے اور وہ جنت میں جانے والی ہے ۔

ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایمان واسلام کی تکمیل بغیر مکارم ِاخلاق کے اپنائے ہوئے ناممکن ہے ۔قرآن پاک نے آقائے دوجہاں اکی صداقت پر آپ کی مقدس اور معصوم زندگی ہی سے استدلال کیا ہے یا دوسرے الفاظ میں اخلاق حسنہ کو بطور دلیل پیش فرمایا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے :’’فقد لبثتُ فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون‘‘یعنی میں اپنی بعثت سے قبل بھی ایک زمانے تک تمہارے درمیا ن زندگی گزار چکا ہوں ،کیا تم عقل و سمجھ نہیں رکھتے ؟ یعنی کیا وہ زندگی میری صداقت کی بیّن دلیل نہیں ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو اخلاق حسنہ اور صفات جمیلہ آقائے دو جہاں کی نبوت و رسالت کی دلیل ہیں وہ اخلاق ایک مومن و مسلم کے کمال ایمان واسلام کی دلیل بدرجۂ اتم ہوں گے ،عبادت اور اخلاق ایک مسلم کی زندگی کی دو مسلم حقیقتیں ہیں ان میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو مسلمان بہ ہمہ صفت مسلمان نہیں رہتا۔فرشتے محض عبادت کے پابند ہیں اس لئے کہ وہ عالم و اسباب مادی و علائق دنیوی سے پرے ہیں مگر انسان اخلاق و عبادت کے مہکتے ہوئے پھولوں کے ایک حسین گلدستے کا نام ہے ۔

اخلاق حسنہ اسلام کی طا قت کا سرچشمہ ہیں

اخلاق حسنہ اسلام کی انفرادی اور اجتماعی طاقتوں کا سر چشمہ ہیں،ان کے ذریعہ سے معاشرۂ اسلامی کا تنہا ایک فرد بھی کامل سکون اور طمانیت ِقلب حاصل کرتا ہے اور اجتماعی حیثیت سے پورا معاشرئہ اسلامی دوسرے غیر اسلامی معاشرے والے پر فوقیت رکھتا ہے اور انہیں ایمان کی دعوت دینے کے بعد اپنے اندر جذب کر لینے اور سمو لینے کی پوری پوری استعداد رکھتا ہے ۔اسلام کا تصور اخلاق اپنی گہرائی اور اثر اندازی کے اعتبار سے عالم گیر ہے ،کائنات انسانی کا کوئی فرد اس کی دسترس سے باہر نہیں وہ ہر طرح کی طبقاتی حد بندیوں سے پاک و صاف ہے ، رنگ و نسل ، ملک و قوم اور ہر طرح کی وطنی اور جغرافیائی تقسیموں سے بہت بلندہے،اس کا دائرئہ عمل غیر محدود ہے ،صحابۂ کرام کے ہاتھوں میں اخلاق ہی کی عظیم تلوار تھی جس کو لے کر انہوں نے صرف چند برسوں میں برِّی اور بحری اعتبار سے پوری دنیا کی اس ناف پر قبضہ کرلیا جہاں سے دنیا کے ہر فرد کو اسلام کا پیغام امن و راحت سنایا جا سکے ۔اشاعت اسلام میں اخلاق ہی کی حیرت انگیز قوت کارفرما تھی۔اسلامی معاشرے اخلاقی اسلحوں سے مسلح ہوتے ہیں اس کو پھر اور کسی اسلحے اور ساز و سامان کی ضرورت نہ پڑتی۔

رحمت عالم آقائے دو جہاں ﷺ کی مجلس پاک میں صحابۂ کرام انتہائی مؤدب بیٹھے ہیں اچانک آقائے دو جہاں ارشاد فرماتے ہیں ’’تم میں سے کون ہے جو ملک چین تبلیغ کے لئے جائے؟ فوراََ حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ اٹھتے ہیں اور بارگاہ مصطفی ا ہی سے چین روانہ ہو جاتے ہیں ۔

آپ غور فرمائیے! ان کے پاس کون ساسا مان اور کون سے اسلحے تھے جس سے مسلح ہو کر وہ تن تنہا انتہائی قوتِ محکم کے ساتھ ایمان ویقین،فتح و کامیابی کی دولت سے مالا مال ہو کر وہ اتنی دور اشاعت اسلام کے لئے تشریف لے جاتے ہیں آپ پکار اٹھیں گے وہ اخلاق ِحسنہ کے ساز و سامان اور اسلحوں سے آراستہ تھے جن کو زیب تن کر لینے کے بعد پھر کسی اسلحے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

فاتح قسطنطنہ حضرت طارق علیہ الرحمہ سے پہلے حضرت ابوایوب انصاری ص تھے جو قسطنطنیہ پہونچے تھے اور اپنی بلند اخلاقی کا سکہ یورپ کے اس مرکز پر بٹھا چکے تھے ۔میں کہوں گا کہ قسطنطنیہ تو اس وقت فتح ہو چکا تھا جب سید ابوایوب انصاری ص نے اہل استنبول کو اپنے اخلاق حسنہ سے گردیدہ بنا کر مسلمان کر چکے تھے ،دنیا کے متعلق اسلام کا اخلاقی نقطئہ نظر یہ ہے کہ پوری دنیا ایک کنبہ کی حیثیت رکھتی ہے اور جس طرح سے ایک کنبہ کا ہر فرد ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر شریک ہے آقائے دو جہاں ادنیاکو اخلاق حسنہ کے اسی مضبوط ترین رشتے میں منسلک کرنے آئے تھے چنانچہ دنیا کو یہی تصور اخلاق عطا فرمایا جس کا اعتراف دنیا کی مشہور شخصیتوں نے کیا ہے ۔پروفیسر مار گرلیتھ لکھتا ہے ’’حضرت محمد ا نے عرب کے تمام منتشر قبائل کو ایک قوم بنا دیا، ایک مذہب عطا فرمایا اور ان میں ایک ایسا اخلاقی رشتہ قائم فرمادیا جو خاندانی رشتوں سے زیادہ محکم ہے۔

اسلامی نظام عبادت اور اخلاق حسنہ:

ہم جب اسلامی نظامِ عبادت پرغور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم کوعبادت الٰہی بھی اخلاق حسنہ ہی سے مزیّن کرتی ہے نماز کا جو فائدہ قرآ ن عظیم نے پیش فرمایاہے وہ اخلاقی بے راہ روی سے ہی بچنا ہے۔قرآن ارشاد فرماتا ہے: ’’ انّ الصلوۃ تنھیٰ عن الفحشاء والمنکر‘‘بیشک نماز فحش اعمال و ممنوعات سے روک دیتی ہے ، نماز میں انسان ۲۴ ؍گھنٹوںمیں پانچ وقت کھڑا ہو کر اپنے کو خدا کے حضور حاضر سمجھتا ہے اس طرح سے وہ ایک عظیم احتساب نفس کرتا ہے برائیوں سے بچنے کا یہ ایک نفسیاتی طریقہ ہے ، روزہ کے متعلق آقائے دو جہا ں انے ارشاد فرمایا: ’’ لیس الصیام من الاکل و الشرب انّ الصیام من اللھو و الرفث‘‘ یعنی روزہ کھانے پینے سے رک جانے کا نام نہیں بلکہ روزہ برائیوں سے رک جانے کا نام ہے اس لئے ہاتھ ،ناک،کان،زبان ،آنکھ سب کا روزہ ہوتا ہے کہ اعضاء سے سرزد ہونے والی غیر اخلاقی حرکتوں سے باز آ جائے خود روزہ صائم کے دل میں ایک ایسا داعیہ پیداکرتا ہے جس کے ذریعہ سے بے کسوں غریبوں اور مفلسوں کی امداد پر آمادہ ہوتا ہے۔

زکوٰۃ معاشرے کی فلاح و بہبود غریبوں بے کسوں اور مظلوموں کی امداد ہی کے لئے مقّرر فرمائی گئی ہے ،حج کا مفہوم یہ ہیکہ زندگی میں ایک بارانسان اپنے عالمی بننے کے لئے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھے اور اجتمائی طور پر پورے کرّئہ ارض پربسنے والوں

کے رنج و غم میں برابر کا شریک بن جائے ،غور فرمائیے کہ اسلامی عبادت پر اس طرح سے چھایا ہوا ہے کہ اخلاق کے بغیر عبادت الٰہی کا تصوّرہی ناممکن ہے ۔