سراج الحق 164

اسلامی پاکستان ۔ قائد اعظم کا پاکستان!

اسلامی پاکستان ۔ قائد اعظم کا پاکستان!
سراج الحق
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 5ستمبر 1938کو ہندوستان ٹائمزکی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ”پاکستان کوئی نئی چیز نہیں، یہ تو صدیوں سے موجود ہے، ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں جہاں آج بھی 70فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، یہی مسلمانوں کا ملک ہے۔ اِن علاقوں میں ایک ایسی آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت ہو، جس میں مسلمان اپنے مذہب، تہذیب و تمدن اور قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں“۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسلام کی عظمت اور قرآن کی حقانیت کی بات کی، حضرت محمدﷺ جو نظام لیکر آئے تھے اُس کو اپنا آئیڈیل قرار دیا اور ماڈل اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے عزم بالجزم کا اظہار کیا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بار نہیں درجنوں بار فرمایا تھا کہ ”ہمیں کسی نئے دستور کی کیا ضرورت ہے، ہمارا دستور تو 14سو سال قبل بن چکا ہے، ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے قرآن و سنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے“۔ ہم دنیا کیلئے پاکستان کو ایک مینارۂ نور، ماڈل فلاحی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ قائداعظم نہ صرف اسلامی نظریہ حیات پر مکمل یقین رکھتے تھے بلکہ پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنا کر دنیا کو اسلامی نظام زندگی سے روشناس کروانے کا عظیم مقصد بھی اُن کے پیش نظر تھا۔ جون 1945میں فرینڈ مسلم اسٹوڈنٹس کے نام اپنے پیغام میں قائداعظم محمد علی جناح نے فریایا ”ہم نے اِس قابل بننا ہے کہ اپنی آزادی کی حفاظت کر سکیں اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں“۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1948میں قائداعظم نے پاکستان کو دنیا کی ایک عظیم اسلامی مملکت بنانے کا دو ٹوک اور واضح اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میں دنیا کو دکھا دوں گا کہ اسلامی اصولوں پر عمل پیراہو کر پاکستان پوری دنیا کے لئے مشعلِ راہ بنے گا، ہم تحریک پاکستان کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیں گے، پاکستان کو اسلامی نظریہ حیات کے فروغ و اشاعت کا مرکز بنائیں گے“۔
مارچ 1948میں چٹاگانگ میں عوامی استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان معاشرتی انصاف اوراسلامی سوشلزم کی یقینی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے جو انسان کی مساوات اور بھائی چارے پر زور دیتا ہے توآپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی آواز اٹھا رہے ہیں“۔مختلف تقاریر اوراسی طرح کے بے شمار بیانات بھی موجود ہیںجو اس بات کی دلیل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلامی صولوں پر چلنے والی اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
آج یہ بحث کرنا کہ پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا یا محض معاشی بنیادوں پر قائم کرنا پڑا تھا ،قوم کو اپنی منزل سے دور کرنے اور قیام پاکستان کے عظیم مقصد کو ناکام بنانے کی سازش کے سوا کچھ نہیں اور یہ سازشیں وہی لوگ کررہے ہیں جو آج تک انگریز کی ذہنی غلامی سے نہیں نکل سکے۔ جن لوگوں نے قوم سے غداری اور انگریز سے وفاداری کے عوض بڑی بڑی جاگیریں اور انعامات لئے ،شہداءکے خون کو نہایت ارزاں قیمت پر بیچا۔ قیام پاکستان کے بعد ان جاگیروں کی آمدن سے کارخانے لگائے، اپنی اولادوں کو امریکہ اور برطانیہ سے تعلیم دلوائی اورملک کے اقتدارپر مسلط ہو گئے۔ بدقسمتی سے 73سال سے یہی طبقہ اقتدار میں ہے۔ آئین میں اسلامی دفعات شامل ہونے کے باوجود اس طبقہ اشرافیہ نے کبھی اس آئین کو قبول کیا نہ اس کی روح کے مطابق نافذ ہونے دیا۔ آج تک انگریز کے نظام کے تحت نظام معیشت، نظام تعلیم اور عدالتوں کو چلایا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں قرآن کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے بلکہ پی ایل ڈی کو مدِنظر رکھ کر فیصلے کئے جارہے ہیں۔ سارے نظام آزمائے جا چکے ہیں مگر بار بار ناکامیوں کے باوجود ایک دن کیلئے بھی ملک میں اسلام کے اِس پاکیزہ نظام کو نہیں آزمایا گیا جس کیلئے پاکستان بنا تھا۔
نیا پاکستان بنانے اورمدینہ کی طرز پر ریاست کو چلانے کے حسین خواب دکھانے والوں نے بھی آج تک آئین کو اس کی مکمل شکل میں بحال کرنے کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا، صورتحال یہ ہے کہ سودی نظام کے خاتمہ اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں قومی زبان اردو کو رائج کرنے کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے موجود ہیں مگر سال ہا سال سے ان فیصلوں پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ سود کے خلاف حکومت کی اپیل کے حق میں جو وکلاء نواز شریف، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عدالت میں پیش ہوتے تھے وہی آج تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے پیش ہورہے ہیں۔آئین اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کیا جارہا ہے مگر کسی کو عوام کی پروا ہے نہ خوف خدا ہے۔
ملک و قوم کو مشکلات سے نکالنے کا اب ایک ہی حل ہے کہ اپنی سابقہ کوتاہیوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے، ہٹ دھرمی اور بغاوت کے رویے کو ترک کرکے رجوع الی اللہ کیا جائے اور پورے اخلاص کے ساتھ ملک میں اللہ کے عطا کردہ نظام کو نافذ کردیا جائے۔