ان المبذرین کانوا اخوان الشیا طین 282

اسراف اور فضول خرچی کی مختلف شکلیں

اسراف اور فضول خرچی کی مختلف شکلیں
شیخ الحدیث حبیب اللہ القاسمی

جاننا چاہئے کہ دین اسلام ایک کامل مکمل بلکہ اکمل ضابطہٴ حیات ہے۔ اس میں انسانوں کی تمام مشکلات اور مسائل کا حل موجود ہے۔ اسلام نہایت اعتدال کے ساتھ ہرانسان کو زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ انسان کی نجی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، خوشی کا ماحول ہو یا غمی کی فضا، تجارت کا میدان ہو یا عبادات کی چار دیواری، ملکی مسائل ہوں یا خانہ داری امور ، داخلی سیاست ہو یا خارجی سیاست، ماکولات ومشروبات کے مسائل ہوں یا ملبوسات ومفروشات کے قواعد، تعمیرات وعمرانیات کے اصول ہوں یا دیگر ضروریات اور معاملات، اسلام نہایت انصاف کے ساتھ ان تمام امور کا تعین اور تحدید وتفصیل پیش کرتا اور انسان کو افراط وتفریط سے بچاتا ہے۔ اسلام انسان کو زندگی گذارنے کا نہایت آسان راستہ سکھاتا ہے، اسلام انسان کو خود دار اور کفایت شعار بناتا ہے، غفلت اور آوارہ گردی سے اس کی حفاظت کرتا ہے، بخل وبزدلی سے اس کو دور رکھتا ہے اور اسراف وتبذیر سے اس کو منع کرتا ہے۔
آج کل پوری دنیا میں مہنگائی کارونا رویا جارہا ہے، قلتِ اشیاء کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور بھوک وافلاس کے خاتمے کا نعرہ لگایاجارہا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے؟ اسلام نے ہمیں اسراف سے روکا ہے اور ہمیں قناعت اور کفایت شعاری کا درس دیا ہے، کفایت شعاری اور قناعت صبر کے زمرہ میں آتی ہے اور”صبر“ ایک ایسا قلعہ ہے جس کی چہار دیواری میں بیٹھ کر انسان سینکڑوں آفات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
آج کل معاشرہ میں صبر نام کی کوئی چیز نہیں ، بس شکایت اور فریاد کا بازار گرم ہے، فقر وفاقہ کی فریاد تو کی جارہی ہے، لیکن صبح کا ناشتہ اور پراٹھا دستور کے مطابق موجود رہنا چاہئے۔ صبر کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا بلکہ میں صرف ”اسراف“ کے حوالہ سے کچھ حقائق مسلمانوں کے سامنے رکھنا چاہتاہوں، کیونکہ اسراف کا تصور مسلمانوں کے عوام تو کجا، ان کے خواص بلکہ بڑے بڑے علماء کے دلوں سے بھی مٹ چکا ہے۔
میں ان باتوں کے لکھتے وقت شرم محسوس کرتا ہوں کہ اسراف کے شعبہ میں مجھ میں کتنی کمزوریاں ہیں اور مجھے اس پر کتنا استغفار کرنا چاہئے۔ نہ معلوم دوسرے لوگوں میں کتنی کمزوریاں ہوں گی؟ سب سے پہلے میں اسراف سے متعلق قرآن کریم کی دو آیتوں کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ نقل کرتا ہوں اور پھر اسراف کی تفصیلات ایک جامع کتاب ”الطریقة المحمدیة“ سے پیش کرنا چاہوں گا، چنانچہ سورة الاعراف میں ہے:
یَا بَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ“۔ (اعراف:۳۱)
ترجمہ:…”اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت وآرائش لے لو، اور کھاؤ اور پیو، مگر اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے“۔
علامہ شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ ”تفسیر عثمانی“ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: ”یہ آیات ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئیں جو کعبہ کا طواف برہنہ ہوکر کرتے تھے اور اسے بڑی قربت اور پرہیزگاری سمجھتے تھے اور بعض اہل جاہلیت ایام حج میں سدّ رمق سے زائد کھانا اور گھی یا چکنائی وغیرہ کا استعمال چھوڑ دیتے تھے، بعضوں نے بکری کے دودھ اور گوشت سے پرہیز کر رکھا تھا، ان سب کو بتلادیا کہ یہ کوئی نیکی اور تقویٰ کی باتیں نہیں، خدا کی دی ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا تستَر اور آرائش ہے، اس کی عبادت کے وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابل استعمال ہے، تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں اس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو، خدانے جو کچھ پہننے اور کھانے پینے کو دیا ہے، اس سے تمتع کرو، بس شرط یہ ہے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ ”اسراف“ کے معنی ہیں ”حد سے تجاوز کرنا“ جس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً: حلال کو حرام کرلے یا حلال سے گذر کر حرام سے بھی متمتع ہونے لگے یا اناپ شناپ بے تمیزی اور حرص سے کھانے پرگر پڑے یا بدون اشتہأ کے کھانے لگے یا بے وقت کھائے یا اس قدر کم کھائے جو صحت جسمانی اور قوت عمل کے باقی رکھنے کے لئے کافی نہ ہو یا مضر صحت چیزیں استعمال کرے، وغیرہ ذلک۔ لفظ ”اسراف“ ان سب امور کو شامل ہے، بے جا خرچ کرنا بھی اس کا ایک فرد ہے، اسی تعمیم کے لحاظ سے بعض سلف نے فرمایا:
”جمع اللّٰہ الطب کلہ فی آیة“ خدانے ساری طب آدھی آیت میں اکھٹی کردی“۔ (تفسیر عثمانی ص:۲۰۵)
یاد رہے کہ” اسراف“ اور” تبذیر“ دو الگ الگ الفاظ ہیں، لیکن دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یعنی بے جا اور فضول خرچ کرنا۔ چنانچہ سورہٴ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے مبذرین کو شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد عالی ہے:
وَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً،إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن،ِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہ کَفُورًا۔“ (بنی اسرائیل:۲۶،۲۷)
ترجمہ:۔ ”اور قرابت والے کو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دیدو اور مال کو فضول مت اڑاؤ، بے شک مال کو فضول اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے“۔
مفسر قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یعنی قرابت والو ں کے مالی واخلاقی ہرقسم کے حقوق ادا کرو، محتاج ومسافر کی خبر گیری رکھو اور خدا کا دیا ہوا مال فضول بے موقع مت اڑاؤ، فضول خرچی یہ ہے کہ (مال) معاصی اور لغویات میں خرچ کیا جائے یا مباحات میں بے سوچے سمجھے اتنا خرچ کردے جو آگے چل کر تفویت حقوق اور ارتکاب حرام کا سبب بنے۔ یعنی مال خدا کی بڑی نعمت ہے جس سے عبادت میں دلجمعی ہو، بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملے ،اس کو بے جا اڑانا ناشکری ہے، جو شیطان کی تحریک واغواء سے وقوع میں آتی ہے اور آدمی ناشکری کرکے شیطان کے مشابہ ہوجا تا ہے، جس طرح شیطان نے خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو عصیان اور اضلال میں خرچ کیا اس (شخص) نے بھی حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو نافرمانی میں اڑادیا۔ (تفسیر عثمانی صفحہ :۳۷۷ ،۳۷۸)
بہرحال ”طریقہٴ محمدیہ“ کے مصنف نے اپنی کتاب کے دوسرے حصہ میں ص:۳۷ پر ”اسراف“ کے بارے میں اس طرح عنوان باندھا ہے:
”المبحث الثالث فی اصناف الاسراف“
یعنی تیسری بحث ”اسراف“ کی اقسام سے متعلق ہے۔
اسراف کی تعریف
”ہو اہلاک المال واضاعتہ وانفاقہ من غیر فائدة معتدبہا دینیة او دنیویة“۔
یعنی کسی دینی اور دنیوی قابل ذکر فائدہ کے بغیر مال کو تباہ وبرباد کرنا اور بے جا خرچ کرنا ”اسراف“ کہلاتا ہے۔
اسراف کی اقسام
۱…اسراف کی پہلی قسم یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے مال کو دانستہ طور پر سمندر میں یا کسی کنویں میں یا آگ میں ڈال کر تباہ کردیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے مال کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے یا توڑ کر رکھ دیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے باغ کا پھل پکنے کے بعد درختوں سے نہیں اتارتا یا کھیتی کی تیار فصل نہیں سنبھالتا، یہاں تک کہ پھل سڑ کر خراب ہوجاتا ہے اور فصل تباہ ہوجاتی ہے یا اگر اس کا مال جانوروں اور غلاموں کی صورت میں ہے تو اس کو گھر میں نہیں رکھتا ہے، جانوروں کو چارہ نہیں کھلاتا ہے اور سخت سردی میں غلاموں کو کپڑے نہیں پہناتا ہے، یہاں تک کہ جانور بھوک سے اور غلام سردی سے مر جاتے ہیں، یہ سب اسراف کے ضمن میں آتا ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نوٹوں کے ساتھ ہاتھ صاف کرتے ہیں یا اس کو پھاڑدیتے ہیں یا کسی طرح جلا ڈالتے ہیں، ان کا یہ عمل اسراف میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔
اسراف کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ: کوئی شخص مال تو جمع کرلیتا ہے، لیکن اس کی حفاظت نہیں کرتا، مثلاً: وہ مال اگر غلّہ کی شکل میں ہے توحفاظت نہ کرنے کی بنا پر اس میں تعفّن پیدا ہوجاتا ہے یا رطوبت پہنچنے کی وجہ سے غلہ خراب ہوجاتا ہے یا اس میں گھن اور کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں یا چوہے آکر اس کو خراب کرجاتے ہیں یا چیونٹیاں اس کو اڑالے جاتی ہیں یا کھانا سڑجاتا ہے۔ یہ خرابیاں غلے کے ساتھ ساتھ کھانے کی اشیاء میں بھی پیدا ہوتی ہیں، مثلاً: روٹی یا گوشت یا شوربے یا پنیر یا آٹاوغیرہ ۔اسی طرح یہ خرابیاں تر پھلوں اور سبزیوں میں پیدا ہوجاتی ہیں اور کبھی خشک میوہ جات میں بھی غفلت اور اسراف سے یہ خرابیاں آجاتی ہیں۔
کبھی کپڑوں میں اسراف ہوتا ہے کہ ایک یا دو کی بجائے کئی کئی فضول جوڑے رکھے رہتے ہیں یا دسیوں لحاف بسترے اور کمبل فضول ریاکاری کے لئے پڑے رہتے ہیں یا طرح طرح کے گھریلو برتن جمع کئے جاتے ہیں اور بڑی بڑی الماریوں میں سجائے جاتے ہیں یا نمائش کی غرض سے علماء کے ہاں ضرورت سے زیادہ کتابیں خریدی جاتی ہیں اور اس میں اسراف کی حد تک تجاوز کیا جاتا ہے۔
اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھا نا پکایاجاتا ہے اور پھر اس کو ضائع کرکے گرایاجاتا ہے یا بھوسے ٹکڑوں کی صورت میں فروخت کیا جاتا ہے یا دسترخوان پر دس دس قسم کے کھانے رکھے جاتے ہیں اور پھر برتن اور دسترخوان آلودہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور پس خوردہ کھانا کچرادان میں پھینکا جاتا ہے، یہ بدترین اسراف ہے، جس کا جواب قیامت میں دینا ہوگا۔
اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کھانا کھانے کے بعد برتن اور انگلیاں چاٹنے سے پہلے پانی سے دھولیتا ہے اور برتن اور انگلیوں سے لگا ہوا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ نیز دسترخوان پر روٹی کے گرے ہوئے تراشے اٹھائے بغیر پھینکنا بھی اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ سنت عمل برتن اور انگلیوں کا چاٹنا اور گراہوا تراشہ صاف کرکے کھانا ہے۔
عن جابر رضي الله عنه أن النبیّ ا أمر بلعق الأصابع والصحفة“۔ (مسلم، ج:۲ ص: ۱۷۵)
ترجمہ:۔ ”حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برتن اور انگلیاں چاٹنے کا حکم فرماتے تھے“۔
”عن أنس رضي الله عنه أن رسول الله ا کان إذا أکل طعاماً لعق أصابعہ الثلاث“۔
(مسلم، ج:۲، ص:۱۷۶)
ترجمہ:۔ ”حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب کھانا تناول فرماتے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی تین انگلیاں چاٹ لیتے تھے۔“
بہرحال انگلیاں چاٹنے اور گرے ہوئے تراشوں کے اٹھانے میں کئی فوائد ہیں:
… اسراف سے بچنا۔
… تکبر سے بچنا۔
… ریاکاری سے حفاظت۔

حصول برکت۔
۵:… سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیروی اور سنت پر عمل ہے۔
اگر گرے ہوئے تراشے اٹھاکر مرغیوں اور بکریوں یا پرندوں اور بلیوں کو کھلادیئے جائیں تو یہ اسراف نہیں ہوگا۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے جوتے اور پگڑی یا لباس کی حفاظت نہ کرے۔ پگڑی کا شملہ اگر کمر سے نیچے تک لمبا ہو تو یہ بھی اسراف ہے۔ قمیص کی آستین اگر انگلیوں تک پہنچ جائے تو یہ بھی اسراف ہے، نیز پاجامہ یا پتلون یا کرتہ اگر ٹخنوں سے نیچے تک جائے تو یہ اسراف بھی ہے اور حدیث کی ممانعت کی وجہ سے حرام بھی ہے۔
غسل میں صابن کواور اسی طرح چراغ کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا بھی اسراف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زیب وزینت کی دیگر اشیاء میں بھی اگر حد سے تجاوز کیا تو یہ بھی اسراف ہے۔ گھروں میں یا مساجد میں ضرورت سے زائد بجلی استعمال کرنا بھی اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (طریقہٴ محمدیہ) ربیع الاول میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت کی آڑ میں ملک بھر میں جو چراغاں کیا جاتا ہے، گنبد بنائے جاتے ہیں اور جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، اس سے بڑا اسراف کیا ہوسکتا ہے؟ جو دین کے نام پر کیا جاتا ہے۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ایک شخص کسی مجبوری کے بغیر محض لاپروائی کی بنا پر ایک عمدہ اور اعلیٰ قیمت چیز کو بہت کم قیمت اور نقصان کے ساتھ فروخت کرتا ہے یا اعلیٰ عمدہ مکان کو بہت کم کرایہ پر چڑھاتا ہے، نہ اس میں صدقہ کی نیت ہے، نہ کسی مسلمان کی ہمدردی کی نیت ہے۔ نیز یہ بھی اسراف کی شکل ہے کہ ایک شخص لاپروائی کے ساتھ بے کارمال کو بہت زیادہ قیمت پر خرید لیتا ہے یا بے کار مکان کو بہت زیادہ کرایہ پر لیتا ہے۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ مرد ے کے کفن کا کپڑا بہت اعلیٰ استعمال کیا جائے یا کفن کو مردے کے قدسے زیادہ استعمال کیا جائے۔ اسی طرح وضو بنانے میں پانی کو زیادہ استعمال کیا جائے، یہ سب اسراف میں داخل ہے۔
مشکوٰة شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا گذر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قریب سے ہوا، وہ وضو کررہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد! یہ کیا اسراف کرہے ہو؟حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! وضو میں بھی اسراف ہے، اگر چہ تم ایک جاری نہر سے وضو بنارہے ہو۔
(مشکوٰة، ص: ۴۷)
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی سیر ہونے کے بعد بھی کھانا کھاتا رہے، ہاں! اگر مہمان کی غرض سے کھائے تو اسراف نہیں یا رمضان میں سحری کے وقت کھائے تو حرج نہیں۔
اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی ایک دن میں بلاضرورت دو مرتبہ کھانا کھائے۔ سنن بیہقی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میں نے ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تم یہ پسند نہیں کروگی کہ تجھے کھانے کے علاوہ (عبادت وغیرہ) کا کوئی شغل ہو؟ اے عائشہ! ایک دن میں دو مرتبہ کھانا اسراف میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔ (بیہقی)
ابن ابی الدنیا اور بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: یہ بھی اسراف میں آتا ہے کہ تم (بلاروک ٹوک) ہر اس چیز کو کھاؤ جس کی تمہیں تمنا اور چاہت ہوجائے۔
تنبیہ
صاحب کتاب نے ان دونوں حدیثوں کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مناسب ہے کہ ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہ لیا جائے کہ پیٹ بھر کر سیر ہونے کے بعد جو آدمی کھائے، وہ اسراف ہے یا یہ مطلب ہو کہ ان حدیثوں میں کراہت کا بیان ہے، حرمت کا بیان نہیں ہے۔ (ص:۴۲)
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی دسترخوان پر کئی قسم کے کھانوں کو جمع کرے، ہاں اگر ایک قسم کے کھانے سے اکتا جائے یا مہمانوں کی وجہ سے مختلف قسم کے کھانے تیار کئے جائیں (بشرطیکہ کھانے کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو) تو گنجائش ہے۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جو چاہو کھاؤ اورجو چاہو پیو، مگر دو چیزوں کا خیال رکھو، ایک اسراف کا، دوسرا تکبر کا۔ (خلاصة الفتاویٰ)
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ روٹی کو درمیان سے کھایاجائے اور اس کے کناروں کو ردی ٹکڑوں میں پھینک کرضائع کیا جائے۔ (خلاصة الفتاویٰ)
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ دسترخوان پر ضرورت سے زیادہ کھانا رکھا جائے، تاہم اس میں بھی یہ شرط ہے کہ کھانا ضائع ہوجائے یا شہرت اور دکھاوا مقصود ہو، تو اسراف ہوگا، ورنہ اسراف نہیں ہوگا۔ (کذا فی الاختیار)
بہرحال اگر کوئی شخص نفیس کھانا کھاتا ہے یا نفیس ولطیف لباس استعمال کرتا ہے یا عمدہ مکان تعمیر کرتا ہے اور یہ چیزیں شرعی حدود کے اندر ہوں اور حلال مال سے ہوں تو یہ اسراف میں نہیں آتا ہے، البتہ کراہت سے خالی نہیں ہوگا، کیونکہ ایک مسلمان کی پوری ہمت اور نظر آخرت پر مرکوز رہنی چاہئے۔ (طریقہ محمدیہ)
اسراف میں یہ بھی آتا ہے کہ کوئی شخص اپنا مال گناہ کے کاموں میں استعمال کرے، اس میں ایک گناہ اسراف کا ملے گا اور دوسرا گناہ اس کا ملے گا کہ اس نے معصیت کا ارتکاب کیا۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص جبل ابوقبیس کے برابر سونا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں خرچ کرے تو اس میں اسراف نہیں ہے، لیکن اگر ایک درہم بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرے تو یہ اسراف میں شمار ہوگا، چنانچہ حاتم طائی سے کسی نے کہا:
”لاخیر فی السرف فقال لاسرف فی الخیر“…
”اسراف میں کوئی خیراور بھلائی نہیں ہے، تو حاتم طائی نے جواب میں کہا کہ بھلائی میں اسراف نہیں ہے۔ بہرحال ایسے صدقہ کرنے میں بھی اسراف ہے کہ آدمی خود مفلس ہوکر دوسروں کا محتاج بن جائے یا اس کے ذمہ پر بھاری قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ اپنا مال صدقہ کررہا ہے، بلکہ مقروض آدمی کے لئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ روٹی کے ساتھ بطور سالن زیتون یا سرکہ استعمال کرے، اس کو چاہئے کہ پہلے قرض ادا کرے۔ (طریقہ محمدیہ ص: ۴۸ج، ۲)
میرے خیال میں اسراف کی سب سے بڑی ذمہ داری گھروں کی خواتین پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ گھریلو خرچہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اگر خواتین کفایت شعاری کی عادت ڈالیں تو مسلمانوں کے معاشرے کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
اسراف کا علاج
اسراف کا علاج تین طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ پہلا طریقہ ”علمی“ ہے۔ وہ اس طرح کہ آدمی اسراف کے برے انجام کو سمجھنے کی کوشش کرے، یعنی وہ یہ علم حاصل کرے کہ دنیا اور آخرت میں اسراف کے عواقب کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اسراف کے علاج کا دوسرا طریقہ ”عملی“ ہے، وہ اس طرح کہ آدمی تکلف کرکے اپنے آپ کو قابو میں رکھے اور بے جا خرچ نہ کرے، بلکہ اپنے اوپر ایک نگران مقرر کرے جو اس کو اسراف کے خطرات سے ڈراتا رہے۔
اسراف کے علاج کا تیسرا طریقہ ”قلعی“ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اسراف کی جڑوں کو پہلے معلوم کرے اور پھر اپنی زندگی سے اسراف کی ان جڑوں کو کاٹ کررکھ دے، یعنی اسراف کے تمام اسباب کا ازالہ کرے۔
یہ تین علاج تو صاحب کتاب نے بتائے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اسراف کے دنیوی اور اخروی برے اثرات سے بچنے کے لئے عوام اور خواص، علماء اور صلحاء سب پر لازم ہے کہ وہ کثرت سے استغفار کیا کریں، بلکہ استغفارکو اپنے اوپر لازم کریں۔ امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا۔
بہرحال جب اسراف غیر مسلموں کے حق میں بھی تباہی ہے تو مسلمانوں کے حق میں یہ کتنی بڑی تباہی ہوگی؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسراف اور عیاشی کے میدان میں مسلمان غیر مسلموں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں کا ایک طبقہ سوکھی روٹی کے لئے ترستا ہے، تو دوسری طرف ایک طبقہ اپنی عیاشیوں اور مستیوں میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ اسراف وتبذیر کی حدود سے بہت آگے جاچکا ہے۔ اسی طرح دنیا داروں کے شانہ بشانہ دین دار بھی چلے جارہے ہیں، چنانچہ یحی بن معاذ رازی رحمہ اللہ نے عوام الناس اور دنیادار علماء کو خطاب کرکے فرمایا:
”یا اصحاب العلم قصورکم قیصریة وبیوتکم کسرویة واثوابکم طالوتیة واخفافکم جالوتیة واوانیکم فرعونیة ومراکبکم قارونیة وموائدکم جاہلیة فاین المحمدیة؟“۔
ترجمہ:۔”اے دین دار حضرات! تمہارے محلات تو شاہِ روم قیصر کی طرح ہیں اور تمہارے مکانات شاہ فارس کسریٰ کی طرح ہیں، تمہارے لباس طالوت کی طرح ہیں اور جوتے جالوت کی طرح ہیں، تمہارے برتن فرعون کی طرح اور سواریاں قارون کی طرح ہیں، تمہارے دسترخوان دور جاہلیت کی طرح ہیں، تو تم میں محمدیت کہاں سے آئے گی؟“۔