احترام انسانیت

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن حکیم میں انسان کی عزت اور اس کے شرف کے حوالے سے نہایت محکم آیات کے ذریعے سے اپنے ارشادات عالیہ عطاء فرمائے ہیں ۔ ان آیات بینات سے مترشح ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ جل جلالہ نے اس کرۂ ارضی پر اپنا نائب اور نمائندہ بنا کے خلق فرمایا ہے، اسے بحرو بر کی بادشاہت عطافرمائی ۔ ارشاد ہوا :
ولقد کرمنا بنی ا ٰدم وحملنٰھم فی البرو البحر ورزقنٰھم من الطیبٰت وفضلنٰھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً (الاسراء)
ترجمہ : ’’اور بے شک ہم نے انسان کو عزت عطا فرمائی اور ہم نے انہیں خشکی اور تری کا کنٹرول عطا کیا اور طیبٰت سے انہیں رزق عطا فرمایا اور ہم نے انہیں اپنی اکثر تخلیق کردہ مخلوق پر مکمل فضلیت عطا کی‘‘۔
اس آیہ مبارکہ پر اگر غور کیا جائے تو اللہ رب العزت فرما رہا ہے کہ ہم نے بنی آدم یعنی حضرت انسان کو عزت عطا فرمائی اور زمین اور سمندر کو اس کے زیر نگیں فرمادیا۔ یہ عزت و تکریم اور یہ بزرگی اسے محض انسان ہونے کی وجہ سے عطا فرمائی یہ سمندروں کی حکمرانی اسے صرف انسانی شرف کی وجہ سے دی ۔ اس کا کالے یا گورے، قوم یا قبیلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کالا گورا قوم قبیلے کے تمام امتیازات ، عربی اور عجمی ہونے کے امتیازات علاقائی اورنسلی امتیازات کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے تمام انسانوں کو ایک طریقے سے اورنفس واحدہ سے پیدا فرمایا۔
سورۂ نساء میں ارشاد ہوا۔
یا یھا الناس اتقو ا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا وبث منھما رجالاً کثیر اًونساء واتقواللہ الذی تساء لون بہٖ والارحام۔ ان اللہ کان علیکم رقیباً (النساء:۱)
اس آیہ مبارکہ میں ارشاد خداوندی ہے اے انسانوں
اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا فرمایاہے،جب تمام انسانوں کو نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے تو انکا خون بھی یکساں ہے،انکی عزت و حرمت بھی یکساں ہے اور انکی عزت و تکریم بھی برابرہے۔
اسی طرح سورۂ التین میں فرمایا:
وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ (۱) وَطُورِ سِینِینَ (۲) وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِینِ (۳) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ(۴)
ترجمہ: ’’انجیر کی قسم اور زیتون کی قسم ، طور سینا (پہاڑ ) کی قسم اور اس پر امن شہر کی قسم بے شک ہم نے انسان کوبہترین حالت درستگی میں پیدا کیا‘‘
ان آیات میں انسانی تخلیق کو بیان کرنے سے قبل اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چار قسمیں کھائیں اور پھر فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین حالت درستگی یعنی اعتدال پر پیدا فرمایا ۔ یقیناًیہ ایک بہت غیرمعمولی بات تھی جس کو اللہ رب العزت نے چار قسموں کے ساتھ مؤ کد فرمایا،احسن تقویم کے لبادہ میں سب انسان کی خلعت فاخرہ بلا امتیاز عطاکی گئی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے معرور بن سوید بیان کرتے ہیں کہ مقام ربذہ ( جہاں حضرت ابو ذر کو جلا وطن کیا گیا)پر میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا اس وقت ابو ذر اور آپکے غلام نے ایک جیسا لباس پہنا ہوا تھا۔میں نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو گالی دی اور اسکی ماں کا طعنہ دیا۔ سرکار دو جہاں والئ غلاماں صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا اے ابو ذر تو نے اسے اسکی ماں کا طعنہ دیا،تمہارے اندر ابھی جہالت کا اثر موجود ہے ، تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں ۔
جعلھم اللہ تحت ایدیکم
اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔
جس شخص کی ماتحتی میں اسکا بھائی ہو تو اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتاہے، اسے وہی کچھ پہنائے جو خود پہنتا ہے اور انہیں ایسی تکلیف میں مت ڈالے جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہو، اگر کوئی مشکل کام ان کے ذمہ لگاؤ تو بھر انکی معاونت بھی کرو۔
( البخاری ، الصحیح، کتاب الایمان،الرقم:۳۰)
حدیث ابو ذرؓ سے واضح ہوتا ہے کہ تمام انسان، انسانیت میں برابر ہیں ۔ ایک غلام کی عزت آقا کی عز ت کے برابر ہے۔ آقا وغلام کے خون کی حرمت برابر ہے۔حاکم اور محکوم کی عزت یکساں ہے۔ امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم کو کعبۃ اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور آپ فرما رہے تھے
ما اطیبک واطیب ریحک، مااعظمک و اعظم حرمتک والذی نفس محمد بیدہٖ لحرمۃ المو من اعظم عند اللہ حرمۃ منک مالہٖ ودمہٖ وأن نظن بہٖ الاخیراً
( ابن ماجہ ، السنن کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤ من ومالہ۔ الرقم ۳۹۳۲)
اے کعبہ! کیا ہی تیرے پاکیزگی اور کیا ہی خوشگوار تیری فضا ہے! اور کیا ہی تیری عظمت ہے! اور کیا ہی عظیم تیری حرمت ہے۔ مگر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم کی جان ہے مؤمن کی حرمت، اس کے خون اور مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تجھ سے کہیں زیادہ ہے۔
محسن انسانیت نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ انسانی حقوق کا تعین فرمایا، توحید خداوندی کے بعد انسانی حقوق کو پہلا درجہ عنایت فرمایا، ان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کردے گا مگر جب تک بندہ اپنے حقوق معاف نہیں کرے گاخدا وند تعالیٰ بھی بندے کے حقوق معاف نہیں کرے گا۔ اس دنیا میں کسی بھی انسان کے لیے ایمان کی دولت سے بڑھ کر کوئی سولت نہیں ہے۔ ایک مؤمن اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی متاع ایمان کو سمجھتا ہے اس کے لیے وہ مال و دولت ، جان، گھربار، وطن، العرض سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اسی ایمان کے تناظر میں وہ دوست اور دشمن کا تعین کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے مؤمن کے جان و مال کی حفاظت کو مدار ایمان قرار دیا ہے،اگر کوئی شخص تمام اوامر و نواہی پر کار بند ہے مگر اس کے ہاتھ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی یا کسی انسان کا مال اور اسکی جان محفوظ نہیں ہے تو وہ مؤمن کہلانے کا چنداں حقدار نہیں ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص بار گاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم میں حاضر ہوا اور سوال کیا:
من المومن ؟ قال من ا ئتَمَنَہُ الناس علی اموالھم وانفسھم ۔
( ابن ماجہ ، السنن کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤ من ومالہ۔ الرقم۳۹۳۴)۔
ترجمہ: مؤمن کون ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا: مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنے اموال اور جانوں کے لحاظ سے محفوظ رہیں ۔
مطلب صاف واضح ہے کہ لوگ اگر اپنی جانوں اور مالوں کے لحاظ سے کسی بھی مسلمان سے خطرہ محسوس کررہے ہوں تو یہ چیز معاشرتی امن کے لیے تو تباہ کن ہے ہی ،یہ اس خاص شخص کے اہمان پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتی ہے کہ آیا وہ اس ظلم کے بعد صاحب ایمان ہے بھی کہ نہیں ۔ کیونکہ اگر کوئی شخص کسی انسان کے ساتھ ظلم کرتا ہے تو ظالم کا دل نورایمان سے خالی ہو جاتا ہے۔ ظلم کا اندھیرا اسے تاریک کر دیتا ہے جس کا دل تاریک ہوجائے وہ ظاہراً تو کلمہ پڑھتا ہے مگر باطناً وہ ایمان سے خالی ہو جاتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت روایت فرماتے ہیں ، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے کسی مؤمن کو قتل کیا اور یہ قتل ظلماً اور ناحق کیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے نوافل قبول فرمائے گا نہ فرائض۔
لم یقبل اللہ منہ صرفاً والا عدلاً
(ابو داؤد، کتاب الفتن والملاحم۔ الرقم: ۴۲۷)
یعنی اللہ نہ نفل قبول فرمائے گا نہ فرض۔
یاد رہے کہ یہ حیثیت اسلامی ریاست کے صرف مسلم شہریوں کو ہی حاصل نہیں ہے بلکہ غیر مسلم شہری جو ایک معاہدے کے تحت اسلامی ریاست میں رہتے ہیں انہیں بھی حاصل ہے۔ ان کے اموال اور جانیں بھی بالکل اسی طرح محفوظ ہیں جیسے ایک کلمہ پڑھتے مسلمان کی ہیں۔ جو کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرتا ہے تو اس کے لیے سرکارصلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا کہ اسکا جنت میں جانا تو کیا وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔اگرچہ جنت کی خوشبوچالیس برس کی مسافت سے بھی اہل ایمان محسوس کر سکیں گے۔
عالم اسلام کی عظیم ہستی اور ائمہ طاہرین کے سراج منیر امام جعفر صادق نے فرمایا:
ولیعلم ان حرمۃ المؤمن من حرمۃ اﷲ تعالیٰ
( امام عبدالرحمٰن سلمیٰ، حقائق التفسیر ۱/۴۲۹)
ترجمہ جاننا چاہیے کہ بے شک مؤمن کی حرمت اللہ کی حرمت میں سے ہے۔ یہ حرمت ایک مؤمن کی زندگی میں بھی قائم رہنی چاہیے اور بعداز وصال بھی۔ اسی وجہ سے میت کو نہایت عزت و تکریم کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے ۔ تجہیز و تکفین کے تمام مراحل میں اسکی عزت و حرمت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ عام جانوروں کی طرح اسکی بے آبروئی نہیں کی جاتی۔
امام ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری نے فرمایا:
ان حرمۃ المؤمن بعد موتہٖ باقیۃ کما کانت فی حیاتہ
( ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری ، کتاب النکاح )
ترجمہ بے شک مؤمن کی حرمت اسکی موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے جیسے اسکی حیات میں تھی ۔
اسلام کے عدالتی نظام کی پوری عمارت انسان کی حرمت کے دفاع میں قائم کی گئی ہے، اگر انسان کے کسی عضو کو تلف کیا گیا ہے تو اس پر بھی جرمانہ عائد کیا گیا ہے، اعضاء کی پوری منفعت ختم ہو جانے پر کا مل دیت واجب ہے اور اگر آدھی منفعت ختم ہوئی ہے تو آدھی دیت واجب ہے اسکی تفصیل ہمیں اس مکتوب سے ملتی ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے حضرت عمر بن حزم کو نجران کا عامل بنا کے بھیجا تو ساتھ یہ مکتوب بھی دیا جس میں تحریر تھا ۔ کہ جان تلف کرنے کی دیت سو اونٹ ہے،ناک تلف کرنے کی دیت بھی سواونٹ ہے،ایک آنکھ ضائع کرنے کی دیت پچاس اونٹ ہے ،ایک ہاتھ ضائع کرنے کی دیت پچاس اونٹ ہے ،ایک پاؤں ضائع کرنے کی دیت بھی پچاس اونٹ ہے ،ہر انگلی کی دیت دس اونٹ اورایک دانت کی دیت پانچ اونٹ ہے۔
( روا ہ الامام محمد فی المؤطا، کتاب الدیات)
سزاؤں میں بھی انسانی شرف کو مدنظر رکھا، سزاؤں کا اطلاق انسانیت کی تذلیل کے لیے نہیں بلکہ انسانی شرف کو بحال رکھنے کے لیے کیا گیا۔ خصوصاً وہ سزائیں جن میں جان کے بدلے جان یا دیگر جگہیں جہاں جرم کی سزا سزائے موت بنتی ہے۔ اسلام نے مجرم کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ ایسی راہیں ڈھونڈ نے پر زور دیا کہ جس میں مجرم بچ سکے،قاتل سے خون بہا وصول کرنا،محصن زانی کی سزا کے لیے چار شہادتوں کا معیار اور نہایت کڑی شرائط مجرم کو بچانے کے لیے ہی متعین کی گئیں ہیں۔
اسلام نے شواہد اور اسباب مجرم کی نجات کے لیے اسباب تلاش کرنے پر زور دیا۔ سرکارصلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا : جس حد تک ممکن ہو مسلمانوں کو سزا سے بچانے کے لیے کوئی بھی گنجائش نکلتی ہو تو اسے چھوڑ دو۔ ( ابن ماجہ)
تکفیر انسانی تذلیل کا ایک اہم عمل ہے جس کی اسلام نے نہایت سخت انداز سے مخالفت کی ہے ،ذرا ذرا سی بات پر مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا یہ بہت ہی مذموم عمل ہے، اس سے انسانوں کے درمیان دشمنی اور عداوت جنم لیتی ہے جسکا لازمی نتیجہ جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اسی لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے تکفیر کو قتل کی مثل فرمایا:
عن عمران بن حصین عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ قال اذا قال الرجل لأ خیہ یا کافر فھو کقتلہٖ
( مجمع الزوائد)
ترجمہ: حضرت عمر ان بن حصین سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنے بھائی کو اے کافر کہ کر پکارے تو وہ اس کے قتل کی مانند ہے۔ اہل قبلہ کی عدم تکفیرپر علمائے سلف کا اجماع ہے
امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا  :انہ لم یکفر احداً من اہل القبلۃ:
یعنی اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ آپکے نامور تلامذہ کا بھی یہ نقطۂ نظر ہے،امام ابو یوسف نے فرمایا کہ شھادتین بولنے والا مسلمان ہے اور محفوظ و معصوم الدم ہے،امام محمد بن حسن شیبانی نے اس کی تائید فرمائی ہے۔اسلام ایک امن پسند مذہب ہے یہ فطرت سے بہت ہم آہنگ ہے، انسانیت کے احترام اور اس کے حقوق کا روئے زمین پر سب سے بڑا علم برادر ہے، اسلا م نے زمین پر امن وامان قائم رکھنے پر بہت زور دیا ہے۔ ’’لاتفسدو ا فی الارض ‘‘یعنی زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔ اسلام کا دہشت گردی یا انتہاء پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے،اہل مغرب کا یہ بہتان ہے کہ اسلام دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور یہ دہشت گردی کا مذہب ہے۔ مغربی مصنفین اور مستشرقین نے بھی اسلام پر تہمت لگائی ہے کہ یہ تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا تھا۔ کا رلائل نے اس کا بہت ہی اعلی جواب دیا تھا اس نے کہا ’’ اگر محمد صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے تیغ زن سپاہیوں کے زور سے اسلام کوپھیلایا ہے تو پہلے ان تیغ زن سپاہیوں کو کس تلوار نے مسلمان بنایا تھا؟ اگر یہی اصول مان لیا جائے کہ تیغ زن سپاہیوں کی مدد سے اسلام پھیلا ہے تو جن علاقوں میں یہ مسلمان جنگجو نہیں گئے وہاں تو پھر اسلام نہیں پھیلنا چاہیے تھا، چین کے کروڑوں مسلمانوں کو کس نے دولت ایمان سے مالا مال کیا؟ افریقی مسلمانوں کو کس تلوار نے مسلمان کیاہے،آج کی دنیا کی طاقت ور ترین مملکت جو کئی ریاستوں پر مشتمل ہے امریکہ اسکی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ
Islam is the fast growning religion in America
کہ اسلام امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا مذہب ہے۔
اسلام نے انسان کو فرعونیت سے محفوظ رکھنے کے لیے شورائیت کا نظام متعارف کرایا ہے۔ مسلم خلفاء اور حکمرانوں کو حکم دیا کہ اسلامی ریاست کے قوانین انسانیت کے تحفظ کے لیے ہوں نہ کہ اس کے استحصال کے لیے، انسانیت کے استحصال کی اسلام نے پر زور مذمت کی ہے۔ انسانیت کی خدمت پر اللہ نے انعام و اکرام کا وعدہ فرمایا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھوکوں کو کھانا کھلایا ،پیاسوں کو پانی پلایا اور بیمار کی عبادت کی، تو گویا اس نے اللہ کو کھلایا، پلایا اور اللہ کی عیا دت کی( مشکوۃ شریف)
احترام انسانیت کے حوالے سے اسلام کی بہت ہی اعلی تعلیمات ہیں ،جو صرف اور صرف اسلام کا ہی طرہ امتیاز ہے، آج کی انسانی حقوق کی نام نہاد تحریکیں اس حوالہ سے اسلام کی گردراہ کو بھی نہیں پہنچ سکتیں ۔