377

“ابن عربی کے موقف کو ابن رشد سمجھے “

“ابن عربی کے موقف کو ابن رشد سمجھے ”
تحریر: پیر محمد زاہد اسدی
کسی بھی قادر الکلام متکلم کو خود اسکی ذہنی سطح ، سرعت فہم ، تعین معانی اور تاویل و تعبیر میں مہارت و قدرت کو سمجھے بغیر جانا اور سمجھا نہیں جا سکتا ، خصوصا جب اسکی کئی تصانیف ہوں اور ایک ہی موضوع کئی جگہ بیان کیا گیا ہو ۔شیخ اکبر ان قادر الکلام اصحاب بیان میں سے ہیں کہ جنہوں نے تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ کلامی مضامین میں سے وجود حق اور غیر حق کو فلسفہ کے طرز پر امکان تاویل و تعبیر کے ساتھ بیان کیا ۔ اعیان ثابتہ اور موجودات خارجیہ کی اصطلاح سے ایک ہی شے کے مراتب و تنزلات پر اعتبارات کے ساتھ کلام کیا ،معبود و مطلوب سے موجود تک راہ نکالی اور لطافت و کثافت کو ازل تا ابد ایک ہی شے کے تنزلات ثابت کیا جہاں اصل سے ظل اور عین سے عکس بیک وقت موجود ہیں ۔۔۔ان سے پہلے بھی ہزار ہا نفوس ان معانی و مفاہیم کے حامل تھے لیکن انکے معارف قلم و قرطاس پر ظاہر نہ ہو سکے اگرچہ بیانیہ طرز پر ان کے ارشادات کو ناقلین نے محفوظ رکھا ۔شیخ اکبر کی وجہ شہرت وحدت الوجود کی حقیقت کو عین وجود میں غیر کے شہودی شعور پر ظاہر کرنا ہے ورنہ وجود وجود کو کیونکر کہے کہ وجود موجود اور ایک ہی ہے ۔۔۔۔۔ ابن رشد نے شیخ کا امتحان کرنا چاہا ۔۔۔ بوقت ملاقات شیخ نے ارواح سے قیامت تک کو نعم اور بلا کے دو الفاظ میں لپیٹ دیا ، ابن رشد متحیر ہوئے اور غور کرنے لگے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ بغیر کسی خارجی مطالعہ اور مکتب و مدرسہ کے ایک شخص جو معتکف ہوا اور جب باہر نکلا تو ابن رشد کو اسکے معارف پر غور کرنا پڑا ۔۔۔ شیخ دراصل فرمانا کیا چاہتے ہیں ۔۔۔ وہ وجود و موجود کی بحث کو صاحب حکمت و استعداد پر بیان کرتے ہیں اور اسے ایک علمی ماحول میں شریعت کے تابع کرتے ہیں اور ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ بعد میں کوئی خام خیال وجود کے موضوع پر دوکان نہ بنائے ۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک طبقہ صفات کے عین ذات کا عقیدہ رکھتا ہے اور ایک غیر کا ، حل مسئلہ یہی نکلا کہ لا عین ولا غیر کہ کر موضوع کو لپیٹ دیا جائے تا کہ کوتاہ فکر ذات جل جلالہ میں غور و فکر نہ کرے اور بلند خیال بھی تسلیم کر لے کہ العجز عن درک الادراک ادراک ۔۔۔۔۔ جو شخص شیخ کے کلام کو سمجھنا چاہے تو وہ اولا شیخ کی اصطلاحات ، ذہنی سطح ، منشائے کلام ، فلسفہ اور شرق و غرب ، عرب و عجم ، ہند و یورپ میں صدیوں سے موجود کلامی ابحاث کو سمجھے اور پھر شیخ کے دستر خوان پر بیٹھے ۔۔۔۔۔۔ اور ایسا وقت کا ابن رشد کرے ، غزالی ہو ، رازی ہو یا مولانا روم ۔۔۔۔۔۔۔۔ تا کہ الحمد للّہ الذی ابدع الافلاک والارضین وھو عینھا اور الحق حق وان تنزلا والعبد عبد وان تعرجا ، دونوں عبارتوں کو اپنے اپنے محل پر انکی حقیقت کے ساتھ سمجھے اور تعبیر کے علم کو جانے کہ تعبیر اس ظلی جہان کی بھی ہے جس میں تیرنے والا اپنے آپ کو جاگتا جی تصور کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کل جہان نیند میں ہے جاگے گا تو جہان نہیں رہے گا اور غیر وہی شعور ہے جسکو مخاطب کیا گیا کہ تو مان لے کہ تو غیر ہے ۔۔۔۔۔۔ یوں جب ہم چاہیں گے تو تیرے لا شعور سے تجھ پر ظاہر کریں گے ایک وجہ تجھ میں عین کی بھی ہے لہذا “من وجہ عین و من وجہ غیر “شیخ کا مدعا ہے لیکن اسے ابن رشد سمجھے ، غزالی بتائے اور رازی لکھے۔۔۔ دیتا ہے ہر ایک کو حکیم ۔ جسکی جیسی فطرت ہوتی ہے ۔۔۔ نوازتا ہے ہر ایک کو وہاب ۔ جس میں جتنی لیاقت ہوتی ہے