mazhar-barlas articles 418

ایسا ہی ہوتا ہے. مظہر برلاس

عثمان باجوہ بزنس کی طرف اُس وقت آئے جب زمینوں نے بھوک بانٹنا شروع کی۔ زمیندارہ پسِ منظر کے حامل عثمان باجوہ کا خاندان صدیوں سے اچا پہاڑنگ پسرور، سیالکوٹ میں آباد تھا۔

زمانے نے ترقی اپنائی تو خاندان اچا پہاڑنگ سے گکھڑ منڈی چلا آیا، باجوے اصلاً گکھڑ منڈی کے نہیں ہیں، گکھڑ تو چیموں کا دیس ہے۔ باجووں کے اس خاندان کے کئی افراد سول و ملٹری بیوروکریسی کا حصہ بن گئے مگر کچھ نے کاشت کاری کو نئی جہتیں دینے کے لئے بہاولنگر کا رخ کیا۔ عثمان باجوہ کے والد ان افراد میں شامل تھے ورنہ وہ اسی گھر میں پیدا ہوئے جہاں پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پیدا ہوئے۔

جہاں سینئر بیورو کریٹ وسیم باجوہ نے جنم لیا، پندرہ سال پہلے جب زمینیں خرچے پورے کرنے سے قاصر نظر آئیں تو عثمان باجوہ نے بہاولنگر سے اسلام آباد کا رخ کیا۔ یہاں ایک ریسٹورنٹ کھولا، نیک نیتی سے اسے کامیاب بنایا۔

میری ان سے ملاقات اکثر ہوتی ہے لیکن پچھلے دنوں انہوں نے بڑی دردمندی سے گفتگو کی۔ کامیاب بزنس مین اور سیدھا سادہ جاٹ کہنے لگا ’’ہمارا معاشرہ کئی بیماریوں کا شکار ہے اور سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ معاشرے کے افراد دولت کے حصول میں اندھے ہوچکے ہیں، معاشرے کی اکثریت بددیانتی سے دولت کے محل کھڑے کرنا چاہتی ہے، لوگوں میں حرام، حلال کی تمیز نہیں رہی، لوگ دولت کے پیار میں رشتوں کی محبت بھول گئے ہیں، نیکی اور بدی بھولتے جارہے ہیں، اس کی روک تھام کے لئے کچھ بھی نہیں ہورہا بلکہ یہ بیماریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں‘‘۔

عثمان باجوہ لمحے کے لئے رکا تو میں نے عرض کیا جناب والا! میں دنیا کے مختلف ملکوں میں گھومتا پھرتا ہوں، مجھے امریکہ و یورپ میں ملاوٹ شدہ اشیاء نہیں ملتیں، مجھے وہاں جھوٹ بولتے ہوئے افراد نظر نہیں آتے، وہ بددیانتی سے دور رہتے ہیں، وہاں، یہاں سے مختلف ایک اور چیز نظر آتی ہے۔

امریکہ، کینیڈا، جاپان ، پورا یورپ اور سارا چین جلدی سوتا ہے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے جاگ جاتا ہے، ان کی فطرت کے نظام سے کوئی لڑائی نہیں، وہ فطرت کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں، اسی لئے ان کی صحت اچھی ہے، سستی ان کے قریب نہیں آتی، ان کی عمریں بھی طویل ہیں، ان کی مارکیٹیں پانچ چھ بجے بند ہوجاتی ہیں، زیادہ سے زیادہ شام سات بجے، بس اس کے بعد شہر ایسے سنسان ہوتے ہیں جیسے چالیس برس پہلے ہمارے دیہات ہوا کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے ہم لوگ غروب آفتاب کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے جیسے آج کل چین، جاپان اور دیگر ملکوں کے افراد کھاتے ہیں۔ میں نے چین میں دیکھا کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا اور ہم ڈنر کرچکے تھے، افسوس ہمارا معاشرہ فطرت سے کہیں دور چلا گیا ہے، ہم لوگ وقت پر سوتے ہیں اور نہ وقت پر جاگتے ہیں، اسی لئے ہمارے ہاں بیماریوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بےوقت کی نیند ہمیں سستی عطا کر جاتی ہے، ہمارے تاجر مارکیٹوں کو جلد بند نہیں کرتے، وہ تو سحری تک دولت کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔

کاش! آخری عشرہ مدینہ شریف میں گزارنے والوں کو وہ احادیث یاد آجائیں جن میں جلدی سونا اور جلدی جاگنا حکمت بتایا گیا ہے، کاش! انہیں حضرت علیؓ کے وہ فرمودات یاد آ جائیں جن میں صبح خیزی کی عظمتوں کو یاد کیا گیا ہے، کاش! پاکستانی تاجر علامہ اقبالؒ کی سحر خیزی پر مشتمل نظمیں ہی پڑھ لیتے، ہماری اگلی نسل تباہ ہورہی ہے، اس میں زیادہ قصور ہمارے بزنس مینوں کا ہے۔ کاش! انہیں یہ حدیث ہمیشہ یاد رہے کہ ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں‘‘۔

میری باتوں کو خاموشی سے سننے والے عثمان باجوہ نے سر اوپر اٹھایا اور خالصتاً دیسی لہجے میں بولا ’’میں اپنے ریسٹورنٹ پر اس بات کا خاص خیال رکھتا ہوں کہ کہیں ملاوٹ نہ ہو، میں مہنگی چیزوں کو قبول کر لیتا ہوں مگر ملاوٹ سے گریز کرتا ہوں، کئی دفعہ میرے ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کے افراد مشورہ دیتے ہیں کہ اس طرح منافع کم ہوتا ہے مگر میں ان کے مشورے کو یہ کہہ کر رد کردیتا ہوں کہ مجھے منافع کی کمی قبول ہے مگر ملاوٹ اور بدیانتی قبول نہیں۔

ہاں سر! ایک جرم میں مجھے شریک ہونا پڑتا ہے، مجھے اس پر دکھ ہے، افسوس بھی، وہ جرم جلدی سونے اور اٹھنے کا ہے۔ میں صبح دس بجے ریسٹورنٹ آتا ہوں، رات کو بارہ بجے جاتا ہوں۔ واپسی پر میرے بچے سو چکے ہوتے ہیں اور صبح وہ میرے اٹھنے سے پہلے اسکول چلے جاتے ہیں، اس سارے کام نے مجھ سے میری فیملی لائف چھین رکھی ہے اور یہی حال میرے دوسرے بزنس مین بھائیوں کا ہے، میں تو چاہتا ہوں کہ مارکیٹیں چھ بجے شام بند ہو جایا کریں تاکہ ہم جلدی سو کر صبح جلد بیدار ہوا کریں، اس کا ہماری صحتوں پر مثبت اثر پڑے گا، ہماری فیملی لائف بحال ہوجائے گی۔

میں تو چاہتا ہوں کہ ہماری زمینوں کی زرخیزی بھی بحال ہو کیونکہ اس سے ذہنوں کی زرخیزی جڑی ہوئی ہے، ہمیں فطرت کے قریب آنا چاہئے، اگر ہماری مارکیٹیں چھ بجے بند ہو جائیں گی تو کوئی طوفان نہیں آئے گا، خدا نے جتنا رزق نصیب میں لکھا ہے، وہ مل کر رہے گا مگر جلد سونے سے معاشرہ خوشگوار ہو جائے گا، لوگ صحتمند ہو جائیں گے، اسی سے صحتمند معاشرہ بنے گا‘‘۔

خواتین و حضرات! بیمار معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ہمارا معاشرے میں ہو رہا ہے، بیمار معاشروں میں ذہنی، جسمانی اور معاشرتی بیماریاں عروج پر رہتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں۔ شاید کسی روز ہم محبوب ظفر کی زبان میں یہ کہنے کے قابِل ہو جائیں کہ؎

خدا کا شکر ہے گرداب سے نکل آیا

میں اس کے حلقۂ احباب سے نکل آیا

سجی ہوئی تھیں دکانیں منافقت کی جہاں

میں ایسے قریۂ بےخواب سے نکل آیا

انا کی ناؤ جہاں ڈولتی پھرے محبوبؔ

میں اس فریب کے سیلاب سے نکل آیا