mazhar-barlas articles 591

یہ نظام جواب دے چکا ہے ۔ مظہر برلاس

یہ نظام جواب دے چکاہے ۔ مظہر برلاس
وہ ابھی ریٹائرڈ نہیں ہوا بلکہ ابھی نظام کا حصہ ہے، وہ بھی سارا دن ان میٹنگوں کا حصہ بنتا ہے جو اس ملک کی بہتری کے لیے ہوتی ہیں مگر اس سب کے باوجود مایوسی کے سائے اتنے لمبے ہیں کہ اسے اس نظام سے بہتری کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی۔

دو روز پہلے اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا کہ تم ایک ذہین ترین بیوروکریٹ ہو، لوگوں کی بہتری چاہتے ہو، حکومتی کوششوں کے باوجود لوگوں کی بہتری کیوں نہیں ہو رہی؟

میرے اس سادہ سے سوال پر گورا چٹا بیوروکریٹ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، ایک لمحے کیلئے سوچا اور پھر کہنے لگا ’’ہم صبح سے لے کر شام تک کام کرتے ہیں، صرف ہماری وزارت نہیں باقی وزارتوں کا بھی یہی حال ہے۔ سارا دن کام ہوتا ہے، میٹنگیں ہوتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں مگر رزلٹ زیرو ہے۔

میں نے بہت سوچا کہ سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے لوگ آخر کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں، عوام کو تو ان کی نوکریوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا کیونکہ ان کے فیصلوں کا کوئی ثمر عوام تک نہیں پہنچ رہا۔

ان کی میٹنگوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ جس قوم کے ٹیکسوں سے ہماری تنخواہیں ملتی ہیں ہمارا اس قوم کو کوئی فائدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ تمام سوالات میرے سامنے بھی کھڑے رہتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں بہت سوچا، بہت غور کیا، بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سارا نظام جواب دے چکا ہے۔

اس نظام سے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، جو مرضی پارٹی اقتدار میں آجائے لوگوں کا فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ نظام اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ یہ نظام اپنی موت کے قریب ہے، اس نظام سے عوام کی بھلائی ہو ہی نہیں سکتی، یہ نظام گل سڑ چکا ہے، یقین کیجئے میں سارا دن فائلوں کو سیکشن افسر سے ڈپٹی سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور سیکرٹری تک سفر کرتے دیکھتا ہوں، بس ان فائلوں کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں لیکن اس تمام مسافت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔

اگر حکومتیں لوگوں کا فائدہ چاہتی ہیں تو انہیں اس نظام کو بدلنا پڑے گا۔ جب تک یہ نظام بدلا نہیں جاتا لوگوں کی بھلائی، لوگوں کا فائدہ خواب ہی رہے گا‘‘۔

ایک حاضر سروس بیوروکریٹ کی باتیں میری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی مگر اس کی ان باتوں نے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد کروا دیا۔

ملک طاہر سرفراز سیاستدان سمیرا ملک کے خاوند ہیں، میری ان دونوں میاں بیوی سے دوستی ہے، ایک زمانے میں ملک طاہر سرفراز وزارت داخلہ میں جوائنٹ سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری تھے، میں ایک روز ان سے ملنے گیا، ان کے گرد فائلوں کے پہاڑ لگے ہوئے تھے، ان کے اسٹاف نے دروازہ کھولا اور میں چپکے سے بیٹھ گیا۔

میں بیٹھا رہا اور ملک طاہر سرفراز فائلیں پڑھتا رہا، کافی دیر کے بعد گردن اوپر کی تو سامنے مجھے پا کر ملک طاہر سرفراز نے کہا ’’آپ کب آئے، میں تو ان فائلوں میں کھویا ہوا تھا، کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ شاید میں بھی ان فائلوں کی طرح ایک فائل ہی ہوں، ان فائلوں میں رہ کر میں بھی ان کا حصہ بن چکا ہوں‘‘۔

میں نے ملک طاہر سرفراز کی باتیں سنیں، ہنسا اور واپس آ گیا مگر دیر تک سوچتا رہا کہ آخر ان فائلوں کا اس ملک کو کیا فائدہ ہے، جن فائلوں سے لوگوں کی بہتری نہیں ہو سکتی، کوئی بھلا نہیں ہو سکتا، ان کے دو نہیں دس پہاڑ بھی بن جائیں تو سب بے کار ہے، سفر کا زیاں ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

دوسرے ملکوں میں لوگ سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لوگ شوق سے نظام کا حصہ بنتے ہیں اور نظام سے مستفید ہوتے ہیں، جس سے معاشرہ اور ملک دونوں ٹھیک چلتے ہیں، ہمارے ہاں نظام کی خرابی نے معاشرے اور ملک دونوں کا نقصان کیا ہے۔

ہمارا معاشرہ کوئی مثالی معاشرہ نہیں، اس معاشرے میں کوئی نظم و نسق نہیں، یہ معاشرہ ایک ریوڑ کی طرح ہے اس معاشرے میں ظلم و زیادتی، جبر، ناانصافی عام ہے۔ یہ معاشرہ قدرت کے اصولوں کے خلاف چل پڑا ہے، اس معاشرے میں بددیانتی، ملاوٹ اور بےایمانی کا رواج ہے، یہاں جھوٹ بولنا عام سی بات ہے، وعدہ خلافی عادت ہے۔

اس معاشرے کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات قدرت کے دیئے ہوئے طریقۂ کار کے خلاف ہیں۔ یہ معاشرہ راتوں کو جاگتا اور دن کو سوتا ہے۔ دکھ یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں دکھ یہ ہے کہ ہماری اگلی نسلیں برباد ہو رہی ہے اور حیرت یہ ہے کہ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ آخر یہ ظلم و ناانصافی کا نظام کب تک چلے گا۔ کیا معاشرہ ریوڑ کی طرح ہی رہے گا۔

اس نظام نے ہمارے ملک کو کتنا پیچھے کردیا ہے، یہ ملک کبھی ایشیا میں سب سے آگے تھا، آج یہ ملک ایشیائی ملکوں میں کہیں پیچھے ہے۔ اس میں راہبروں کا قصور ہوگا مگر اس میں اس نظام کا بھی بڑا دخل ہے کیونکہ دنیا کے ملکوں کو ان کے نظام آگے لے کر گئے ہیں۔

ان ملکوں میں معاشروں کو نظام نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے، ایک ہم ہیں ہماری گورننس ہی ٹھیک نہیں، ہمارا نظام ہمیں بربادیوں کے راستے دکھاتا ہے، اس نظام سے نہ معاشرہ درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک۔ اس پوری کہانی پر، پورے نظام پر مجھے سرور ارمان کا شعر یاد آتا ہے کہ

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن