چلیے جی! آپکو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے نئے گورنر رضا باقر صاحب سے ملواتے ہیں 807

چلیے جی! آپکو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے نئے گورنر رضا باقر صاحب سے ملواتے ہیں

چلیے جی! آپکو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے نئے گورنر رضا باقر صاحب سے ملواتے ہیں، جناب کوئی عام شخص نہیں ہیں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے یوں ہی ان کو منتخب نہیں کر لیا “مشورے سے کیا ہے” اور سابقہ “کار کردگی” کی بنیاد پہ کیا ہے۔ جناب گذشتہ سولہ سال سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کیساتھ کام کر رہے ہیں اور حال ہی میں مصر(Egyp،افریقہ کا ایک مُلک) کی economy میں اپنا “بھرپور کردار” ادا کر چُکے ہیں, مثلاً Egyptian Pound کی جوُن 2014ء میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں value تھی 7.15 Egyptian Pound اور آج کی ڈیٹ میں ہے 17.19,تو دیکھیں امریکی ڈالر کے مقابلے میں Egyptکی currency کا “پٹھا بٹھانا” کوئی عام کام نہیں ہے، پورا “استحصالی اور Harvardمیں پرورش پانے والا دماغ” لگانا پڑتا ہے تب کہیں جا کہ Economy کا ستیاناس ہوتا ہے۔ اور ہمارے سابقہ حکمران بھی کچھ کم نہ تھے، سب لوگوں نے ایسے ہی “ایک سے بڑھ کر ایک اعلی درجے کا گورنر مقرر” کیا۔۔۔

۔ 2017 میں طارق باجوہ صاحب تھے وہ بھی Harvardسے پڑھے تھے۔

۔ 2014میں اشرف محمود وتھڑا صاحب تھے، جو IMF کے بورڈ آف گورنر میں بھی رہ چُکے تھے۔

۔ 2011 میں یاسین انور صاحب تھے، جو کہ امریکی بینکر تھے اور امریکہ کے شہری بھی۔

۔ 2010 میں شاہد حفیظ کردار صاحب تھے جو oxford university سے پڑھے ہوئے تھے۔

۔ 2009 میں سید سلیم رضا صاحب تھے جو کہ برطانیہ کے شہری بھی تھے اور عالمی بینک سٹی بینک میں اپنی “خدمات” سر انجام دےچکے تھے اور آکسفورڈ ینورسٹی سے پڑھے ہوئے تھے۔

۔ 2006 میں “محترمہ” شمشاد اختر صاحبہ تھیں جنہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کیساتھ بطور سینئر مشیر کام کیا اور ورلڈ بینک کی Vice President بھی رہیں۔

۔1999 میں عشرت حسین صاحب تھے اور جناب بھی ورلڈ بینک میں اپنی خدمات سر انجام دے چکے تھے۔

کافی ہے یا اور پیچھے چلیں۔۔۔؟؟؟

تو یوں ہم پہ ہمیشہ عالمی سرمایہ داری نظام کے “نمائندوں” کو مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ 1950میں پاکستانی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر تھی 3.3روپے اور آج ہے 141.18، اب آپ خود دیکھیں کرنسی کا اور پاکستان کی economy کا بیڑا غرق کرکے ملک پہ 99.1ارب ڈالر قرضے کا بوجھ ڈالنا “کوئی بچوں کا کھیل” ہے۔ تو کیا خیال ہے، ضرورت تھی نہ IMFکے fresh اور Trained نمائندے کو لانے کی؟
تو کیا خیال ہے اگر باقی سب گورنرز نے IMFکا ایجنڈا execute کیا ہے تو جناب باقر رضا صاحب نہیں کریں گے؟

جب تک ہم عالمی سرمایہ داری نظام کو بطور نظام نہیں سمجھیں گے، تب تک یہ سارا “معاشی و سیاسی شترنج کا کھیل” سمجھ میں نہیں آئے گا، تب تک ہمارے زہن کی اُڑان صرف اتنی ہی ہو گی کہ “پوسٹ میں صبا قمر اور مہوش حیات کی فوٹو کیوں لگائی اور ایجوکیشن کا شوبز سے comparison کیوں کیا” بغیر شعور حاصل کیے ہمارا زہن “الفاظ، تصویروں اور شخصیات” سے اوپر اُٹھ کر بات کی گہرائی کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ اور آخر میں، قومی آزادی اور آزادی کا شعور پہلی اور بنیادی ضرورت ہے، پھر ہی حقیقی تبدیلی آئے گی۔

تحریر: زاہد عمران