mazhar-barlas articles 465

پورے خطے میں زلزلہ۔ مظہر برلاس

چند روز پہلے لاہور میں پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات چوہدری منور انجم کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ ایک سیاسی اکٹھ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ میں اپنے خوش لباس دوست نوید چوہدری، گورنر پنجاب چوہدری سرور اور سینیٹر اکبر خواجہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔

یہاں ہونے والی گفتگو میں بھی فیصلہ زیر بحث رہا، ہر جگہ اسی فیصلے کے چرچے ہیں۔ اس تقریب میں بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات ہوئی۔ بلاول بھٹو بڑے تپاک سے ملے۔

پاکستان میں نئی ابھرتی ہوئی سیاسی قیادتوں میں شاید بلاول بھٹو زرداری واحد سیاستدان ہیں جن کی سوچ اور عمل میں سیاسی پختگی تیزی سے آ رہی ہے۔

ایک ورکر کے بیٹے کی شادی میں شریک ہونا بھی ایک عمدہ عمل ہے، اس سے یقیناً پارٹی ورکروں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اس تقریب میں ہر طرف یہی سوال گردش کرتا رہا کہ کیا ہونے والا ہے؟

یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر کوئی اپنی پالیسی کے مطابق دیتا ہے۔ اس تقریب میں موجود سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز حسین کا جواب مسکراہٹ تھا مگر اس تقریب کے تین دن بعد چوہدری شہباز حسین کے وزیر بھتیجے فواد چوہدری نے ’’جنگ‘‘ کے صفحات پر ایک ایسا آرٹیکل لکھ مارا، جس نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

فواد چوہدری نے گزشتہ بیس پچیس سالہ خامیوں کو ایک مضمون میں سمو کر ایک نئے عمرانی معاہدے پر زور دیا ہے۔ یہ ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ اس کا تفصیلی جائزہ کسی اگلے کالم میں پیش کروں گا۔ فی الحال اتنا اشارہ ضرور مل گیا ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔

کہیں نہ کہیں نئے عمرانی معاہدے کا سوچا ضرور جا رہا ہے، اطلاعات تو یہ ہیں کہ آئندہ الیکشن صدارتی ہوں گے کیونکہ پاکستان صدارتی نظام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں قائم پارلیمانی جمہوری نظام نے گزشتہ پینتیس سالوں میں لوگوں کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا بلکہ لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔

اب یہ نظام کچھ بھی کرنے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے۔ اسی لئے لوگوں کو جولائی 1947ء میں کہی گئی قائداعظمؒ کی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا ’’اگر پاکستان میں برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا تو بدقسمتی ہو گی، پاکستان کا شاندار مستقبل صدارتی نظام میں پنہاں ہے‘‘ آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ قائداعظمؒ نے خود بھی وزیراعظم کے بجائے گورنر جنرل بننا پسند کیا تھا۔

گورنر جنرل کا عہدہ دراصل صدارتی عہدہ تھا۔ موجودہ حالات میں ویسے بھی برصغیر کے لوگوں کو قائداعظمؒ کی باتیں بہت یاد آ رہی ہیں۔ آج کے بھارت کو دیکھ کر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قائداعظمؒ کا موقف درست تھا جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد، مفتی محمود، باچا خان اور خاکسار تحریک کا موقف غلط تھا۔

اسی لئے مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’1947ء میں دو قومی نظریہ مسترد کرکے بھارت کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ آج الٹا پڑ گیا‘‘ شاید لوگ بھول رہے ہوں قائداعظمؒ نے علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’جو لوگ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ اور ان کی آنے والی نسلیں اپنی بقیہ زندگی بھارت سے وفاداری ثابت کرنے میں گزاریں گی‘‘

آج آگ میں جلنے والا بھارت چیخ چیخ کر قائداعظمؒ کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ آج کے بھارت میں تمام سنجیدہ فکر طبقے پریشان ہیں اسی لئے لاکھوں مظاہرین جے پور، کلکتہ، آسام، لکھنؤ، دہلی اور حیدر آباد کی سڑکوں پر ہیں۔

مغربی بنگال، تری پورہ، میزو رام، ناگا لینڈ، اتر پردیش، بہار، ہریانہ اور پنجاب میں بھی احتجاج جاری ہے۔ بھارت میں شہروں کے شہر میدانِ جنگ بن گئے ہیں، درجنوں افراد کی ہلاکت اور ہزاروں گرفتاریوں کے باوجود مظاہرے بے قابو ہوتے جا رہے ہیں، مودی سرکار اپنی خفت مٹانے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے، طاقت کا یہی استعمال مودی کے گلے پڑ گیا ہے۔

مظاہروں میں صرف مسلمان نہیں بلکہ سکھ، دلت اور بدھ مت کے علاوہ ہندوئوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بھارت کے کروڑوں نوجوانوں نے مودی کے نظریے کو مسترد کر دیا ہے، یہی نوجوان مودی کے نظریے کو گنگا برد کر دیں گے بھارتی میڈیا ’’مودی کی جان کو خطرہ ہے‘‘ کا واویلا کر رہا ہے مگر مودی اس دوران نئی سازشوں میں مصروف ہے، وہ بھارت میں لگی آگ بجھانے کے لئے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔

پاکستان میں بھی آج کل ایک فیصلے نے بھونچال پیدا کر رکھا ہے، پاکستانی قوم کی اکثریت کو اس فیصلے سے اختلاف ہے۔ اسی لئے پاکستان کے مختلف شہروں میں پرویز مشرف کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

پرویز مشرف کی بہادری اور جنگی حکمت عملیوں کو شاندار الفاظ میں یاد کیا جا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی بہادری کی گواہی سابق انڈین آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے بھی دی ہے۔ جنرل وی کے سنگھ کے مطابق جنرل پرویز مشرف 99ء میں سرحد عبور کرکے گیارہ کلومیٹر بھارتی حدود کے اندر آئے، انہوں نے اپنے فوجی دستوں کے ساتھ بھارتی سرزمین پر رات گزاری۔

یہ کسی بھی ملٹری کمانڈر کی بہادری کی عمدہ مثال ہے۔ واضح رہے کہ جنرل وی کے سنگھ 2010ء سے 2012ء تک انڈین آرمی چیف رہے ہیں۔

افغانستان کے حالیہ الیکشن میں اگرچہ اشرف غنی نے کامیابی حاصل کی ہے مگر عبداللہ عبداللہ الیکشن کے نتائج ماننے سے انکاری ہیں، افغانستاان میں بھی مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں، بنگلا دیش ویسے ہی مظاہروں کی سرزمین ہے۔ اس وقت کابل سے لے کر دہلی، ڈھاکہ اور رنگون تک بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔

اسی دوران دنیا میں بدلتے ہوئے طاقت کے توازن نے بھونچال پیدا کر رکھا ہے۔ حال ہی میں ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس نے طاقت کے کئی مراکز کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

طاقت کے ان مراکز میں بھی ایک بھونچال آ چکا ہے، اس زلزلے کا اثر مشرق وسطیٰ میں بھی نظر آ رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ہر طرف زلزلہ ہے بقول اقبال ساجد؎

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں

ہمارا حوصلہ دیکھو، ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں