وزیر اعظم کی تقریراور توہین صحابہ مفتی گلزاراحمد نعیمی 956

وزیر اعظم کی تقریراور توہین صحابہ مفتی گلزاراحمد نعیمی

وزیر اعظم کی تقریر۔
اور
توہین صحابہ
جس دن بجٹ پیش ہوا اس دن رات بارہ بجے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کیا۔یہ خطاب کچھ نشر ہوا اور کچھ فردوس عاشق اعوان کی منصوبہ بندی کی نظر ہوگیا۔پہلی دفعہ پی ٹی وی کی بجائے ایک پرائیویٹ کمپنی سے خطاب ریکارڈ کروایا گیا۔اسکے پیچھے کیا حکمتیں پوشیدہ تھیں یہ تو مشیر صاحبہ ہی بتا سکتی ہیں لیکن سامعین بہرحال پورا خطاب سننے سے محروم رہے۔اس خطاب میں محترم وزیراعظم نے صحابہ کرام کےحوالہ سے کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے جو بہت غیر محتاط تھے۔ان غیر محتاط الفاظ سے اسلام کے نام پر اپنا دھندا چلانے والی جماعتوں نے سوئے استفادہ کیا اور شور مچایا کہ وزیراعظم نے توہین صحابہ کی ہے ۔میرا نہیں خیال کہ وزیراعظم کے ذھن کے کسی خانہ میں توہین صحابہ کا کوئی پہلو موجود ہو مگر سیاست کے اسلامی مداریوں نے اس کا خوب واویلا مچایا اور ابھی تک مچا رہے۔اسکا برا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کچھ پوسٹیں سوشل میڈیا پر آرہی ہیں جن سے باقاعدہ طور پر توہین صحابہ ہورہی ہے۔ہمارے ایک فیس بک کے دوست ہیں جناب مفتی عبدالشکوررضاقادری صاحب انہوں نے اپنےغم کا اظہار فرمایا ہے اور سچی بات ہے میرا دل بھی انکی بیان کردہ حالت زار سے بہت رنجیدہ ہوا۔ ان کے ایک فیس بکی دوست نے پوسٹ لگائی کہ صحابہ کے بارے میں اللہ نے فرمایا اصحاب النار واصحاب الجنۃ۔صحابہ جہنمی بھی ہیں اور صحابہ جنتی بھی ہیں۔العیاذ باللہ۔
اب اس باضابطہ گستاخی صحابہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے اور نادان لوگ عمران خان کی حمایت میں بے تکی جہالت پرمبنی دلیلیں گھڑتے رہیں گے۔اس صورت حال کی اصل ذمہ دار وہ اسلام کے نام پر سیاست چمکانے والی جماعتیں ہیں جو اپنے آپ کو دین کا ٹھیکیدار سمجھتی ہیں۔ان جماعتوں کے اکابرین نے کیا لکھا ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔میں صرف ایک مثال پر اکتفاء کرونگا۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی مرحوم نے العمران کی آیت نمبر 121 کے ضمن جو کچھ لکھا ہے اس سے ایک مختصر اقتباس اپنے قارئیں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔مولانا لکھتے ہیں”لیکن اس ابتدائی کامیابی کوکامل فتح کی حد تک پہچانے کے بجائےمسلمان مال غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئےاور انہوں نےدشمن کے لشکر کو لوٹنا شروع کردیا۔ادھر جن تیراندازوں کونبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےعقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھاانہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہےاور مال غنیمت لٹ رہی ہےتو وہ بھی اپنی جگہہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔”( جنگ احد کے ضمن میں انہوں نے یہ تبصرہ کیا۔ہے)
اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اور موازنہ بھی کر سکتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ میں کتنا تفاوت ہے۔اگر عمران کے الفاظ توہین صحابہ پہ مبنی ہیں تو پھر مودودی صاحب کے الفاظ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔میری دانست میں اسکو صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اچھالا جارہا ہے۔ہمارے اہل سنت برادران آسیہ ملعونہ کی وجہ سے عمران خان پر برہم ہیں اور یہ برہمی درست بھی ہے۔لیکن وہ ان سیاسی جوگادریوں کی چالبازی میں نہ آئیں۔اپنی صلاحیتیں ایک بڑے معرکہ کے لیے محفوظ رکھیں جو بہت جلد اسلامی دنیا میں رونما ہونے کو ہے۔اسلام کو مغرب کی طرف سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے سیکولرزم ، الحاد اور اسلاموفوبیا بہت بڑے چیلنجز ہیں اسلام کے لیے، ہمیں انکی تیاری کرنی چاہیے۔مجھے شرح صدر ہے کہ مغرب کی چالبازیوں کا مقابلہ ہم ہی کریں گے۔
آج کی صورت حال اسمبلی کی دیکھیں شہباز شریف مولانا اسد الرحمن سے اپنے سے بھی پہلے تقریر اس لیے کروانا چارہا تھا کہ وہ توہین صحابہ والا معاملہ اٹھائیں گے اور ہم اپنی دوکانداری چمکائیں گے۔اگر اسمبلی میں اسلامی جماعتیں کرائے کے قاتل کا کردار ادا کریں گی تو پھر دین یونہی تماشہ بنتا رہے گا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اسلام اس وقت خطرے میں پڑتا ہے جب نام نہاد اسلامی سیاسی جماعتوں کے مفادات پر زد پڑتی ہے۔اگر انکی تجوریاں کوئی بھر دے تو اسلام کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔
بہرحال میری دوستوں سے گزارش ہے کہ برائے کرم صبر سے کام لیں،ایک صاحب ایمان کے لیے کسی بھی قابل احترام ہستی کے بارے میں کوئی چھوٹا جملہ بھی برداشت نہیں ہوسکتا لیکن ہر شخص اپنے مبلغ علم کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
طالب دعاءگلزار احمد نعیمی۔