pm imaran president rohani 908

 وزیر اعظم پاکستان کا دورہ ایران۔ مفتی گلزار احمد نعیمی

 وزیر اعظم پاکستان کا دورہ ایران۔ مفتی گلزار احمد نعیمی
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حکومت بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل سے دو چار ہے ۔ کابینہ کی حالیہ اکھاڑبچھاڑ سے ایک غیر یقینی کی کیفیت نے جنم لیا ہے۔ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ لیکن میں عمران خان کی کچھ اچھی خصلتوں کا معترف رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ انہی کی بدولت وہ ملک کو تمام بحرانوں سے نکال لیں گے۔ وزیر اعظم کی ایک بہت ہی قابل قدر عادت جس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے وہ یہ کہ جب بھی وہ بیرونی دوروں پر جاتے ہیں تو عام سر براہان کی طرح پروٹوکول کے حصول کے لیے بے تاب نہیں ہوتے اور اس کا کسی حد تک لالچ بھی نہیں رکھتے ۔ بلکہ بیرونی دوروں پر انہوں نے سب سے پہلے اپنی عقیدت اور مذہبی لگاؤ کا کھلم کھلا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد جب انہوں نے سعودی عرب کاپہلا دورہ کیا تو سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض اترنے کی بجائے انہوں مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہلے جانے کو ترجیح دی ۔وہ سب سے پہلے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضر ہوئے اور حاضری کا انداز بھی بہت منفرد اور نمایاں تھا۔ جونہی ائیرپورٹ پر اترے سرزمین مدینہ کا تقدس ملحوظ تھا، اپنی جوتی اتار کر در نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضر ہوئے ۔جب ترکی کا دورہ کیا تھاانقرہ کے بجائے قونیہ کے شہرہ آفاق صوفی بزرگ حضرت جلال الدین محمد رومی کے مزار پر پہلے جانے کو ترجیح دی۔ اب جب وزیراعظم پاکستان عمران خان اسلامی جمہوریہ ایران کے تاریخی دورہ پر تشریف لے گئے تو انہوں نے تہران ائیر پورٹ پر اترنے کے بجائے مشہد المقدس جانے کو ترجیح دی۔ یہاں اہل بیت نبوت کے عظیم فرزند جناب امام علی بن موسیٰ الرضا کا دربار ہے جو پورے دنیا کے مسلمانوں کی نظر میں نہایت قابل عزت و تکریم ہے۔آپ خانوادہ نبوت کے چشم و چراغ اور آٹھویں امام ہیں۔ امام علی رضا کا شمار اسلام کی ان بلند ترین ہستویوں میں ہوتا ہے جن پر اسلام بجا طور پر فخر کر سکتا ہے ۔میرے خیال کے مطابق آج اگر ایران طاغوتی قوتوں اور استعماری سورماؤں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے تو اس کے پیچھے اسی فرزندرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روحانیت طاقت ہے جو ایران کو کسی بین الاقوامی غاصب کے سامنے جھکنے نہیں دیتی۔ چالیس سال سے امریکی پابندیوں کا شکار ایرا ن امام علی رضا کے روحانی فیض کی وجہ سے کبھی مالی بحران کا شکار نہیں رہا۔ جب بھی ایران کو معاشی مدد کی ضرورت ہوتی ہے وہ امام علی رضا کے اکاؤنٹ سے مدد لے لیتا ہے۔ یہ دربار اپنے تزک و احتشام کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بہت ہی مضبوط مستحکم ہے۔
اس لیے ایران اسی ہستی کے بل بوتے پر کسی کے سامنے جھکتانہیں ہے۔ میری دعاہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی اس دربار پر حاضری اور دعاقبول ہو اور پاکستان اپنے معاشی مسائل سے سرخرو ہو کر نکلے (آمین)۔ میری خواہش ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو امام علی رضا کے مزار اور اس سے ملحقہ معاشی منصو بے جو ہزاروں نہیں لاکھو ں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں انکا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس حکومتی تحویل میں بہت سے ایسے مزارات ہیں جنکی ماہانہ آمدنی لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے۔ مگریہ اہل کاروں کی لو ٹ مار کا شکار ہیں۔ اگر اسکو صحیح طورپر خرچ کیا جائے تو معاشی طور پر ملک کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
عمران خان کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اس دفعہ بھی دورۂ ایران کے دوران انہوں نے کہا ہے کہ بعض دہشت گرد عناصر نے ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کی ہے ۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے یہ سچ ہے کہ افغانستان میں بیٹھی عالمی قوتیں اور انڈیا ایسے گروہوں کی سرپرستی کرتاہے جو بلو چستا ن کے راستے ایران پر دہشت گر دی کرتے ہیں ۔ حالنکہ پاکستان کا ان گروہوں سے دور کابھی واسطہ نہیں ہے ۔ یہ قوتیں محض پاکستان اور ایران کو آپس میں لڑانے اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنے کے لیے ایسا کرتی ہیں ۔ ہمیں ان راستوں کو مسدود کرنا ہوگا جو ہمارے اسلامی ملک ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے فروغ میں روکاوٹ ہیں ۔ اسی طرح ایران کو بھی چاہیے کہ بلوچ علیحدگی پسندجتھوں کے ٹھکانے ختم کرے جو ایرانی علاقوں میں قائم ہیں ۔ بھارت ان بلوچ علیحدگی پسندوں کو فنڈنگ بھی کرتاہے اور اسلحہ بھی فراہم کرتاہے اور یہ سب کچھ ایرانی بارڈر کو استعمال کرکے کیا جاتا ہے ۔ یہ دونوں طرف کے سچ ہیں جو دونوں طرف کے رہنماؤں نے قبول کیے ہیں ۔اس سلسلہ میں دونوں ممالک نے سرحدی سیکورٹی کے لیے مشترکہ فورس بنانے کا جو اعلان کیا ہے وہ بہت ہی خوش آئند اور از حد مفید ہے۔ اس سے بارڈر کی دونوں جانب دہشت گرد پاکستان اور ایران کے برادرانہ تعلقات کو کمزور نہیں کر سکیں گے ۔ عمران خان اور صدر حسین روحانی کا یہ عزم بھی بہت قابل تعریف ہے آئندہ ہم اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر اعظم خان کی یہ یقین دہانی کہ وہ کسی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے ، ایران کے لیے بہت ہی اطمینان کا باعث ہوگی۔ وزیر اعظم نے ایران میں فلسطینی مسلمانوں کے حوالہ سے بھی بہت حوصلہ افزابیان دیا ہے ۔ فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کے مطالبہ کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر ایک جیسے مسائل ہیں ۔ دونوں خطوں کے مسلمان ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔صدر روحانی نے کہا کہ کسی تیسرے ملک کوہم اپنے باہمی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ ایران نے پاکستان کو پیش کش کی ہے کہ وہ پاکستان کی تیل اور گیس کی ضروریات پوری کرنے اور 10گناہ زیادہ بجلی دینے پر تیار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جانب دہشت گردانہ کاروائیوں نے باہمی اعتماد کو کمزور کیا تھا۔ مگر وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران نے اس بڑھتی ہوئی خلیج کو بہت حد تک کم کیاہے۔
پاکستان کے روس کے ساتھ 9ارب ڈالر سے زیادہ کی دفاعی تجارت کے معاہدے اور وزیر اعظم کے دورۂ ایران سے کچھ چیزیں واضح ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ پاکستان کی آئندہ خارجی پالیسی کی سمت کیا ہوگی ۔امریکہ اور مغربی طاقتوں نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہچایاہے۔ اور اب بھی ایٹمی پاکستان امریکہ کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتاہے۔ وہ کسی صور ت میں پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے پاکستان کی ترقی اور اس کے روشن مستقبل کے لیے نہایت ناگیزہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا رخ روس، ایران اور ترکی کے ساتھ بہترین تعلقات کی طرف موڑے۔ایران کی سیاسی اور مذہبی قیادت کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات مثالی ہوں ۔ وزیر اعظم پاکستان کی ایرانی رہبر معظم آیت اللہ التعظیمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ بر صغیر پر عروج اس وقت تھا جب مسلمانوں نے اس پر حکومت کی ۔ اس اہم خطے پر برطانوی سا مراج کی حکومت نے جو سب سے بڑا نقصان کیا وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کی تباہی تھی۔ رہبر معظم نے علامہ محمد اقبال لاہور اور قائداعظم محمد علی جناح کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کے اچھے تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں ۔ لیکن بعض دشمن عناصر پاک ایران تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں انکی خواہشات کے برعکس باہمی تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ سرحدی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے رہبر نے کہا کہ دہشت گرد عناصر مشترکہ سرحدوں پر بدامنی پھیلاتے ہیں وہ دشمنوں کے حمایت یافتہ ہیں۔ انکا مقصد پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایرانی حکام سے مذاکرات کو تعمیری اور کامیاب قرار دیاہے۔ اور کہا کہ ہمارے بہت سے مسائل حل ہوگئے ہیں ۔ اس سے قبل وزیر اعظم نے ایرانی صدر حسن رورحانی سے بھی بہت ہی مفید ملاقات کی جس میں سرحدی ،تجارتی اور بین الاقوامی مسائل پر سرحاصل بات کی گئی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے اعتماد کی فضاکو برقرار رکھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک ایران سرحدجو 909کلو میٹر پر مشتمل ہے ابھی تک اس بڑے بارڈر پر پاکستان یا ایران نے اپنی ریگولر فوج ڈپلائے نہیں کی اسکی بنیادی وجہ دونوں ممالک کا باہمی اعتماد اور اسلامی اخوت کے رشتہ کا موجود ہونا ہے۔ اگر یہ اعتماد کی فضا دہشت گرد اپنے دہشت گردانہ حملوں سے یا اسلام مخالف قوتیں اپنی ریشہ دانیوں کی وجہ سے مکدر کردیں تو دونوں ممالک کو بڑا نقصان ہوگا۔ ابھی بعض جگہوں پرباڑ لگائی جارہی ہے، یہ اچھا قدم ہے ۔ لیکن ہمیں سرحد کے ان مسائل کا ایک مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ سی پیک کی کامیابی کے لیے گوادر اور کوسٹل ہائی وے کا دہشت گردوں سے اور دہشت گردی کی کاروائیوں سے محفوظ ہونا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے صدر روحانی کا اعتماد جیتنے کے لیے یہ بہت خوبصورت بات کہی ہے کہ ’’ہم اپنی سرزمین سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے‘‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان میں ایرانی سیکورٹی فورسز پر کئی حملے ہو چکے ہیں اور ان حملوں کے لیے پاکستان بلوچستان کی سرزمین منصوبہ بندی کے لیے استعمال کی گئی۔ ایران سے کلبھوشن یا دو اور ابھی کوسٹل کا واقعہ ایران کی طرف سے آنے والے دہشت گردوں کی کاروائی ہے۔ اس لیے دونوں ممالک زخم خوردہ ہیں۔ لیکن یہ ایک دوسرے کو زخم لگانے والے نہیں ہیں ۔ ان کو زخم لگانے والے وہ دشمن ہیں جو اسلامی ممالک کے مضبوط باہمی تعلقات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے دونوں ممالک کو اپنے مشترکہ دشمنوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر اپوزیشن نے بہت ہنگامہ کھڑا کیا ہے کہ انہوں نے قبول کر لیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔ میرے نزدیک وزیراعظم کااس حقیقت کا اعتراف بہت ہی قابل تعریف ہے۔ ہمیں ہر وقت مسائل سے صر ف نظر کرکے انکاری کیفیت (State of denial)میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ مسائل کو قبول کر کے انکا حل تلاش کرنا چاہیے۔اب دونوں ممالک نے اس حقیقت کو قبول کیا ہے کہ دونوں طرف سے بارڈر استعمال ہورہے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اب اسکا حل بھی نکل آئے گا۔