848

قربانی (فضائل و مسائل )

قربانی (فضائل و مسائل )
از قلم : کاشف گلزار
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات انتہائی کریم ذات ہے ۔ اپنے بندوں سے محبت اور ان پر کرم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نار جہنم کو اپنے نافرمانوں کیلئے جلا تو دیا لیکن اس سے بچنے کے بے شمار اور انتہائی آسان ذرائع بھی عطا فرما دیئے۔ قربانی بھی انہی راستوں میں سے ایک راستہ ہے جو انسان کو جہنم سے محفوظ اور جنت کے قریب کرتا ہے۔قرب خدا وندی کا ایک بہت بڑا ذریعہ قربانی ہے۔قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قربانی اللہ کی رضا کے حصول کا سبب اور تقویٰ جیسی عظیم روحانی و ایمانی صفت سے متصف کرنے والا عمل ہے۔
قربانی قرآن حکیم کی روشنی میں:
قرآنِ کریم میں تقریباً چھ (6) آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔
سورة حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)“․(1)
ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور فقیر کو بھی کھلاوٴ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاوٴ! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔
سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔
”وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(۳۲)“۔(2)
ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے“۔
سابق انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دُعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اُترتی اور اُسے کھاجاتی جسے قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم میں ہے:
”اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ عَھِدَ اِلَیْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ“۔(3)
ترجمہ:۔”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ ہم کسی رسول کی اُس وقت تک تصدیق نہ کریں؛ جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اُس کو آگ کھاجائے“۔
قربانی کی تارِیخ پہلے اِنسان ہی سے شروع ہوجاتی ہے:
”وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(4)
ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدَم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب اُن میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶۲)“(5)
آیت بالا کے تحت امام جصاص رَازی لکھتے ہیں:
”ونسکی: الاضحیة، لانہا تسمی نسکاً، وکذلک کل ذبیحة علی وجہ القرابة إلی اللّٰہ تعالیٰ فہی نسک، قال اللّٰہ تعالی: ففدیة من صیام و صدقة و نسک“۔(6)
ترجمہ:۔”نسک“ سے مراد قربانی ہے؛اس لیے کہ اُس کا نام ”نسک“ بھی ہے، اِسی طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ”نسک“ کہلاتا ہے، ا رشادِ بارِی تعالیٰ ہے: ”فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُکٍ“۔(7)
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“ اِبن کثیر اِس آیت کے تحت رَقمطراز ہیں:
”قال ابن عباس وعطاء ومجاہد وعکرمة والحسن: یعنی بذلک نحر البدن ونحوہا، وکذا قال قتادة ومحمد بن کعب القرظی، والضحاک والربیع وعطاء الخراسانی والحکم وإسماعیل بن أبی خالد وغیر واحد من السلف“۔(8)
”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما، حضرت عطاء، مجاہد، عکرمہ رحمہم اللہ سمیت متعدد مفسرین فرماتے ہیں کہ ”وانحر“ سے اُونٹ کا ”نحر“ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لیے جانے والے جانور میں سے بڑا جانور ہے“۔
اِس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحی پڑھنے وَالے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں، اس کے بعد قربانی کریں، جن لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے، اگر اُنہوں نے عید سے پہلے قربانی کردِی تو اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔
”لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ(۲۸)“۔ (9)
ترجمہ:۔”تاکہ یہ سب آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطاء کیے ہیں، سوائے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاوٴ“۔
اِس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذِکر ہے۔ ہرقوم میں نسک اور قربانی رَکھی گئی، جس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآورِی اس جذبے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا قربانی کا عمل فتنہٴ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔
” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“(10)
ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے“۔
یہ مندرجہ بالا آیات قربانی کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔ شریعت محمدی میں اس مروجہ قربانی کا پس منظر بھی قرآن حکیم کی آیات بینات سے ملتا ہے ۔ االلہ پاک نے اپنے پیاری نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب دیکھایا جو سورہ الصٰفٰت میں مذکور ہے۔ ارشاد ہوا:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۰۲﴾ (11)
پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
پھر چشم فلک نے وہ عظیم منظر بھی دیکھا کہ عظیم باپ اپنے بیٹا قربان کرنے کیلئے تیار اور عظیم بیٹا قربان ہونے کیلئے تیار ہے۔
سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمان باری پر
زمین و آسمان حیراں تھے اس اطاعت گزاری پر
قرآن بیان کرتا ہے:
فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ﴿۱۰۳﴾ۚ (12)
پس جب دونوں نے (اللہ کے حکم) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا
پسر خلیل کی سیکھ ادا جو ہے ذبح ہونے کی آرزو
کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا
رحمت خداوندی کو اپنے خاص بندوں پر پیار آیااورارشاد ہوا
وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ﴿۱۰۴﴾ۙقَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۰۵﴾ (13)
تو ہم نے ندا دی: اے (پیارے) ابراہیم!تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔
محترم قارئین کرام! انبیاء کرام کے خواب سچے ہوتے ہیں لیکن حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کا خواب معنوی طور پر اور تاویل سے سچ ثابت ہوئے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ خواب ایسے سچ ثابت ہوا کہ آپ علیہ السلام اپنے پیارے بیٹے کے گلے پر چھری چلا رہے تھے اور ان کی چھری کے نیچے مینڈھا لا کر رکھ دیا گیا لیکن سند بارگاہ خدا سے عطا کر دی گئی کہ ابراہیم تو نے سچ کر دکھایا۔ حضرت اسماعیل کہ جگہ مینڈھا ذبح ہو گیا اور یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب معنوی طور پر سچ ثابت ہوا۔
قربانی احادیث کی روشنی میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے مقامات پرقربانی کی فضیلت و اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قربانی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب عمل ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ،‏‏‏‏ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ،‏‏‏‏ إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا،‏‏‏‏ وَأَشْعَارِهَا،‏‏‏‏ وَأَظْلَافِهَا،‏‏‏‏ وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا ،‏‏‏‏. (14)
حضرت عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عید الاضحیٰ کےدن قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کوئی عمل محبوب نہیں ہے اور قربانی کا جانور بروز قیامت اپنے سینگوں اپنے بالوں اور اپنے کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ پاک کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے، لہذا خوش ہو کر قربانی کیا کرو۔
سنن ابن ماجہ میں کتاب الاضاحی ، باب ثواب الاضحیۃ میں حضرت زید بن ارقم سے روایت مذکور ہے:
عن زيد بن ارقم ، قال: قال اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ما هذه الاضاحي؟، قال:” سنة ابيكم إبراهيم”، قالوا: فما لنا فيها يا رسول الله؟، قال:” بكل شعرة حسنة”، قالوا: فالصوف يا رسول الله؟، قال:” بكل شعرة من الصوف حسنة“.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے آپ سے پوچھا : یا روسول اللہ یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں، عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ان میں ہمارے لیئے کیا اجر ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کے خون کے ہر قطرے کے بدلے میں نیکی ہے۔
عن علی ؓان رسول اللّٰہﷺ قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی أضحیتک، فان لک باوّل قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، أما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابوسعید: یا رسول اللّٰہﷺ! ہذا لآل محمد ﷺخاصة، فانہم أہل لما خصوا بہ من الخیر، أو للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد ﷺخاصة، وللمسلمین عامة (16)
حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے) فرمایا: اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجود رہو، اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامّت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا(زیادہ) کرکے رکھا جائے گا، حضرت ابوسعیدؓنے عرض کیا :اللہ کے رسولﷺ! یہ فضیلت خاندان نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد ﷺکے لئے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔
ذو الحجہ کے پہلے عشرہ کی بڑی فضیلت ہے،اس میں بہت بڑے اور اچھےاعمال سرانجام دئے جاتے ہیں ،ان اعمال میں ایک ا اور محبوب ہم ترین عمل اللہ کی قربت اور رضا کے حصول کی نیت سے قربانی کرنا ہے ۔ قربانی فقط جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایثار وجاں نثاری ، تقوی وطہارت کا دوسرا نام ہے ،اس لئے قربانی کرنے والوں کو اپنی خالص نیت کے ساتھ قربانی لوجہ اللہ کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا فرما ن ذیشان ہے :
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ(الحج :37)
ترجمہ: اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ لا ينظرُ إلى أجسادِكُم ، ولا إلى صورِكُم ، ولَكِن ينظرُ إلى قلوبِكُم(صحیح مسلم:2564)
ترجمہ: بے شک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ۔
قربانی کا شرعی حکم:
اگر شریعت مطہرہ میں قربانی کیلئے بیان کردہ تمام شرائط کسی شخص کیلئے مکمل ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی اور اگر ان میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں قربانی واجب نہیں ہو گی بلکہ اس کی قربانی سنت یانفل ہوگی۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:
1. مسلمان ہونا، غیرمسلم پر قربانی واجب نہیں ہے۔
2. مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔
نوٹ: شرعاً مسافر وہ شخص ہے جو اپنے شہر کی حدود سے تقریباً 48 میل (تقریباً 78 کلو میٹر) دور جانے کے ارادے سے نکلا ہو، یا 48 میل (تقریباً 78 کلو میٹر) دور کسی مقام پر پہنچ چکا ہو اور اس کی پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو یا اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو یہ شخص کہیں آنے جانے میں اپنی مرضی کا مالک نہ ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کی مرضی کے تابع ہو، جیسے بیوی شوہر کے تابع ہے یا نوکر اپنے مالک کے حکم کے تابع ہے اور جس کے تابع ہیں، اس نے پندرہ دن سے کم کی نیت کی ہے۔
3. نصاب کا مالک ہونا، اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا ضروریات زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے ادا کرنے سے مذکورہ نصاب باقی نہ رہے۔
4. بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے۔ نابالغ شخص صاحبِ نصاب ہی کیوں نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں۔
قربانی کا وجوب قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO
پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)۔
الْکَوْثَر، 108: 2
درج بالا آیتِ مبارکہ میں اِنْحَرْ صیغہ امر ہے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے قربانی کا واجب و ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔
مخنف بن سلیم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، آپ نے فرمایا:
اَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلٰى كُلِّ اَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً.
’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی واجب ہے۔
احمد بن حنبل، مسند احمد، 4: 215
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ له سعة فلم يضح ، فلا يقربن مصلانا.
’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘
ابن ماجه، رقم الحديث: 3123
مذکورہ احادیث میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کرنے کا حکم فرمایا اور قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے۔ ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو۔
تبیان القرآن کی جلد 9 کے صفحہ 936 پر مذکور ہے کہ علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی الحنفی لکھتے ہیں:
قربانی غنی (صاحب نصاب ) پر واجب ہے نہ کہ فقیر پر ، بغیر نذر کے اور بغیر قربانی کا جانور خریدنے کے، بلکہ یہ زندگی کی نعمت کا شکر ادا کرنے کیلئے واجب ہے۔ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی میراث کو زندہ کرنے کیلئے، جب ان کو اللہ عزوجل نے مینڈھا ذبح کرنے کا حکم دیا تھاتاکہ وہ ان کے فرزند ارجمند کا فدیہ ہو جائےاور مسلمانوں کیلئے پل صراط پر سواری ہو جائے ، اور ان کے گناہوں کی بخشش اور خطاوں کا کفارہ ہو جائے، اس معانی پر احادیث کثیرہ ناطق ہیں اور یہی امام ابو حنیفہ ؒ امام محمدؒ ، اما م زفرؒ امام حسن بن زیاد کا قول ہےاور امام ابو یوسف سے بھی ایک یہی روایت ہے۔
قربانی اسلام کا عظیم شعار اور مالی عبادت ہے جو ہر اس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہے جو عید الضحیٰ کے ایام (10، 11، 12 ذوالحجہ) میں نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب کے برابر ہے۔ نصابِ شرعی سے مراد کسی شخص کا ساڑھے باون تولے (612.36گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) سونے یا اس کی رائج الوقت بازاری قیمت کے برابر مال کا مالک ہونا ہے۔ قربانی کے وجوب کے لیے محض مالکِ نصاب ہونا کافی ہے، زکوٰۃ کی طرح نصاب پر پورا سال گزرنا شرط نہیں ہے۔
لہٰذا اگر قربانی کے ایام میں آپ کے پاس مطلوبہ رقم موجود ہو تو آپ پر قربانی کرنا واجب ہے۔
قربانی کے ایام:
شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی حنفیؒ لکھتے ہیں :
قربانی کا ادا کرنا صرف ایام نحر میں جائز ہے اور ہمارے نزدیک ایام نحرصرف تین ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایام نحر تین ہیں ان میں پہلا دن افضل ہے اور جب تیسرے دن سورج غروب ہو جائے تو پھر اس کے بعد قربانی جائز نہیں ہےاور امام شافعی ؒ نے کہا کہ چوتھے دن بھی قربانی جائز ہے اور یہ ضعیف ہے کیونکہ یہ قربانی ایام نحر کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ ہی ایام تشریق کے ساتھ ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ کہ پہلے دن یعنی 10 ذو الحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے اور وہ یوم نحر ہے۔(17)
نافع بیان کرتے ہیں کہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : قربانی صرف قربانی کے دن اور اس کے دو دن بعد تک ہے۔(18) حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص بھی قربانی کرے تو تین دن کے بعد اس کے پاس گوشت میں سے کوئی چیز بھی بچی نہ رہے ، جب دوسرا سال آیا تو ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم اس سال بھی پچھلے سال کی طرح کریں؟ آپ نے فرمایا: تم خود کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ کرو، اس سال لوگ تنگی میں تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ تم تنگی میں ان کی مدد کرو۔(19)
قربانی کے جانور:
حدیث مبارکہ میں حضرت عبید بن فیروز رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کون سے جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے؟ تو حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جبکہ میری انگلیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے اور میرے پورے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پوروں سے حقیر ہیں۔ آپ نے چار انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قربانی میں چار قسم کے جانور درست نہیں ہیں:
الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى. قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ. قَالَ: مَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
ایک تو کانا جس کا کانا ہونا ظاہر ہو، دوسرا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو، تیسرا لنگڑا جس کا لنگڑانا ظاہر ہو اور چوتھا وہ بوڑھا جانور جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو۔ میں عرض گزار ہوا کہ جس کی عمر کم ہو یا جس کے دانت میں نقص ہو مجھے وہ بھی ناپسند ہے۔ فرمایا جو تمہیں ناپسند ہو اسے چھوڑ دو لیکن دوسروں کے لئے حرام نہ ٹھہراؤ۔
أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، 3: 97، رقم: 2802، بيروت: درا الفكر
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم هَى أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الْأُذُنِ وَالْقَرْنِ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے جس کا کان کٹا ہوا یا سینگ ٹوٹا ہوا ہو۔
أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، 3: 98، رقم: 2805
اور فقہاء کرام نے مزید وضاحت بیان کی ہے:
كُلُّ عَيْبٍ يُزِيلُ الْمَنْفَعَةَ عَلَى الْكَمَالِ أَوْ الْجَمَالِ عَلَى الْكَمَالِ يَمْنَعُ الْأُضْحِيَّةَ، وَمَا لَا يَكُونُ بِهَذِهِ الصِّفَةِ لَا يَمْنَعُ، ثُمَّ كُلُّ عَيْبٍ يَمْنَعُ الْأُضْحِيَّةَ فَفِي حَقِّ الْمُوسِرِ يَسْتَوِي أَنْ يَشْتَرِيَهَا كَذَلِكَ أَوْ يَشْتَرِيَهَا وَهِيَ سَلِيمَةٌ فَصَارَتْ مَعِيبَةً بِذَلِكَ الْعَيْبِ لَا تَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ.
ہر ایسا عیب جو فائدہ مکمل طور پر ختم کر دے یا خوبصورتی مکمل طور پر ختم کر دے، قربانی کو ناجائز کر دے گا۔ اور جو عیب ایسا نہیں وہ قربانی کے جواز کا مانع نہ ہو گا۔ پھر ہر عیب جو امیر آدمی کے حق میں قربانی کا مانع ہو، برابر ہے کہ اس نے جانور ویسا ہی خریدا تھا یا خریدتے وقت عیب سے پاک تھا، پھر اس عیب سے عیب دار ہو گیا، اس کی قربانی کسی طور جائز نہیں۔ اور غریب آدمی کے لئے ہر صورت میں قربانی جائز ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 5: 299، بيروت: دارالفكر
درجہ بالا احادیث مبارکہ اور فقہاء کرام کے موقف سے معلوم ہوا کہ جن عیوب کی وجہ سے جانور قربانی کے لیے ممنوع ٹھہرتا ہے، اُن میں جانور کا خصی ہونا شامل نہیں ہے بلکہ خصی جانور کی قربانی تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ» ثُمَّ ذَبَحَ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے روز سینگوں والے، چتکبرے اور خصی دو مینڈھے ذبح فرمائے۔ جب انہیں قبلہ رو کیا تو کہا: بیشک میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ یہ کام حضرت ابراہیم کے طریقے پر ہے، ایک خدا کا ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں سے ہوں۔ اے اﷲ یہ تیری طرف سے اور تیرے لئے ہے، محمد اور اس کی امت کی جانب سے اﷲ کے نام سے شروع اور اﷲ بہت بڑا ہے پھر ذبح فرمایا۔
نوٹ: (یہ الفاظِ حدیث سنن ابو داود سے لئے گئے ہیں اور یہی حدیث مبارکہ کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے)
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 220، رقم: 25885، مصر: مؤسسة قرطبة
2. أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3: 95، رقم: 2795، دار الفکر
3. ابن ماجه، السنن، كتاب الأضاحي، باب أضاحي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ، 2: 1043، رقم: 3122، بیروت: دار الفکر
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَيَجُوزُ الْمَجْبُوبُ الْعَاجِزُ عن الْجِمَاعِ وَاَلَّتِي بها السُّعَالُ وَالْعَاجِزَةُ عن الْوِلَادَةِ لِكِبَرِ سِنِّهَا.
اور جس جانور کا آلہ وخصیہ کٹا ہو، جماع سے عاجز ہو یا کھانسی ہو، ان کی قربانی جائز ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 5: 298
جانور کا خصی ہونا قربانی کے لیے عیب شمار نہیں ہوتا اور خصی جانور قربان کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے۔

حوالہ جات:
(1) الحج:۳۶۔۳۷ (2) الحج:۳۲ (3) آل عمران:۳۸۱ (4) المائدة:۲۷ (5) انعام:۱۶۲ (6) البقرة:۱۹۶
(7) احکام القرآن ۳/۳۶ (8) ابن کثیر، ۶/۵۵۶، مکتبہ فاروقیہ پشاور (9) الحج:۸۳ (10) الحج:۳۴ (11) الصٰفٰت:102
(12) الصٰفٰت:103 (13) الصٰفٰت:104-5 (14) سنن الترمذی، رقم الحدیث 1493 (15)سنن ابن ماجہ ، رقم الحدیث: 3127 (16) الترغیب والترہیب:2/277۔278 (17) المبسوط، ج:12،ص12، دارالکتب العلمیہ البیروت
(18) مؤطا امام مالک ، رقم الحدیث1077 (19)صحیح بخاری ، رقم الحدیث5569