783

سیدۃنساء اہل الجنۃ : تحریرمفتی گلزار احمد نعیمی

سیدۃنساء اہل الجنۃ

آج تین رمضان المبارک ہے اور آج کا دن اہل سنت کی معتبر روایات کے مطابق سیدہ ،طیبہ، طاہرہ جان مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا یوم وصال ہے۔آپکا وصال تین رمضان المبارک گیارہ ہجری کو ہوا۔بنت رسول شہزادئی کونین،جن کے گھرانے کو اہل بیت رسول کے گھرانے کا اعزاز حاصل ہے۔جنکی آل کو اھل کساء کا اعزاز حاصل ہے۔جو خود سیدہ نساء اہل الجنۃ ہیں اور انکے بیٹے سیدا شباب اھل الجنۃ ہیں۔آج ہم اس ہستی کا تذکرہ کرنےکا شرف حاصل کررہے ہیں جسکا والد تمام خلق خداوندی کے لیے رسول بن کے آیا۔جسکی والدہ کو انکا رب عرش بریں سے سلام بھیجتا تھا اور جس ہستی کو اللہ نے ملکہ عرش بریں بنا کر مصطفے کے گھر میں تولد فرمایا ہےاور جسکو رسول نے بضعۃ منی قرار دیا۔یہ وہ ہستی ہے کہ جسکی رضا مصطفے کی رضا قرار پائی اور جسکا غضب ،غضب رسول ٹھرا،یہ خود رسول نے قرار دیا۔اگر فاطمہ غصہ میں ہوتو رسول غصہ میں ہوں اور فاطمہ جب غضبناک ہو تو خود خدا غضب ناک ہو۔جسکی گفتار گفتار رسول قرار پائے،جسکی رفتار رفتار رسول قرار پائے۔جومسکرائے تو اسکا مسکرانا رسول کا مسکرانہ لگے۔جسکی نشست نشست رسول ہو اور جو کھڑی ہو تو یوں لگے کہ رسول قیام فرما ہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ سلام اللہ علیھا کی گواہی ہے کہ میں نےطور طریقوں میں،اخلاق وکردار میں،طہارت و نفاست میں،نشست وبرخاست میں اور گفتگو ولب لہجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مشابہت میں فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں پایا(ابوداؤد،السنن،الرقم۔3872)۔یہ گواہی ام المومنین سیدہ ام سلمہ سلام اللہ علیھا کی بھی ہے وہ فرماتی ہیں کہ فاطمہ رفتاروگفتار میں رسول اللہ کابہترین نمونہ تھیں۔فاطمہ پیکر صدق وصداقت تھیں سیدہ عاشئہ ہی فرماتی ہیں کہ فاطمہ کے بابا کےسوا اور فاطمہ کے سوا زیادہ سچا اور صاف گو میں نے کسی کوئی نہیں دیکھا(الاستیعاب)
عرفان خدا وندی کا ایک بحر بے کراں تھیں یہ شہزادئی کونین۔عبادت خداوندی سے وہ محبت ،عشق ووارفتگی تھی کہ راتوں کو بارگاہ خداوندی میں قیام اور لمبا قیام محبوب ترین مشغلہ تھا۔دن آتا تو آپ روزہ رکھ لیتیں۔قائمۃ اللیل و صائمۃ النہار تھیں بنت رسول۔رسول کے قیام کو ،سجدوں کو ،تلاوت کو اور عبادت وریاضت کو اپنی سر کے آنکھوں سے بشم خود ملاحظہ فرمایا۔اس طرح اپنے قیام کو رسول کے قیام کے مطابق، اپنے سجدوں کو رسول کے سجدوں کے مطابق ڈھال لیا۔بحر توحید میں غرق فاطمہ کئی بار خوف خدا سے غش کھا کے گر پڑتی تھیں۔تلاوت قرآن پاک کے مرحلہ میں جسم اطھر پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔مولی علی کرم اللہ وجہہ کی شھادت ہے کہ فاطمہ گھر میں کھانا تیار کررہی ہوتی تھیں اور زبان پر ذکر خدا بھی جاری رہتا تھا۔حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ سیدہ گھر کا کام کاج کررہی ہوتی تھیں اور ساتھ ساتھ تلاوت قرآن حکیم بھی فرما رہی ہوتی تھیں۔حتی کہ چکی پیستے بھی قرآن کی تلاوت جاری رہتی تھی۔سیدنا امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو صبح سے لیکر شام تک عبادت اور گریہ وزاری میں دیکھتا تھا وہ نہایت خشوع وخضوع سے دعائیں مانگتی تھیں لیکن یہ سب دعائیں اپنے لیے نہیں بلکہ یہ اپنے بابا کی امت کے گنہگار لوگوں کے لیے ہوتی تھیں۔حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں کی سیدہ کائنات ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتی تھیں۔
آپ قرآن کی عالمہ اور حدیث رسول کی ثقہ ترین محدثہ تھیں۔امام دارقطنی نے آپکی مرویات پر مشتمل احادیت کی کتاب “مسند فاطمہ”کے نام سے مرتب کی تھی خدا جانے اب وہ مارکیٹ میں دستیاب ہے کہ نہیں۔آپکی عفت و پاکیزگی اور مبلغ علم آسمان کو چھو رہا تھا۔حجۃ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ نے احیاء علوم الدین میں لکھا ہے کہ ایک دفع سرکار نےفاطمہ سے پوچھا کی عورت کی سب سے اچھی صفت کیا ہے؟آپ نے عرض کی “ابا جان عورت کی سب سے اچھی صفت یہ ہے کہ وہ نہ غیر مرد کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اسے دیکھے”
مجھے سیدہ کی عائلی زندگی کو دیکھ ایک عجیب قسم کی حیرت ہوتی ہے کہ مالک بحر وبر کی بیٹی ہیں اور غربت کا یہ عالم ہے کہ لباس بھی پورا نہیں اور فقر اختیاری کا یہ عالم ہے کہ گھر میں اول تو کھانے کے لیے کچھ ہوتا ہی نہیں اگر کچھ ہو بھی تو وہ راہ خدا میں تقسیم فرما دیتی ہیں۔ایک طرف اپنے شہزادے ہیں جو شاہ بحر وبر کی محبتوں کا مرکز ہیں اور دوسری طرف مانگنے والے غرباءو مساکین دروازے پر آجاتے ہیں تو اپنے بچوں کی ضروتوں کی پرواہ کیے بغیر انکی خوراک کو بھی سائلین میں تقسیم فرمادیتی ہیں۔ایک دفع آپ بیمار پڑ گئیں،سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلاتو آپ اپنے ایک صحابی حضرت عمران بن حصین کو ساتھ لیکر اپنی بیٹی کی تیمار داری کے لیے تشریف لاتے ہیں۔چونکہ ایک صحابی ساتھ تھے تو سرکار نے اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی اور فرمایا کہ میرے ساتھ عمران بھی ہیں تو سیدہ نے عرض کی ابا جان اللہ کی قسم میرے پاس ایک عبا کے سواکچھ نہیں ہے جسے کے ساتھ میں اپنے سر کو ڈھانپ سکوں تو آپ نے اپنی مبارک چادر اندر پھینکی جس سے سیدہ نے اپنا سر ڈھانپا اور پھر سرکار عمران بن حصین کے ساتھ اندر وارد ہوئے۔ علامہ اقبال نے فرمایا:
آں ادب پروردہ صبر ورضا
آسیا گردان ولب قرآن سرا
گیارہ ہجری کو جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس کے بعد سیدہ کی زندگی کے دن بھی راتوں میں بدل گئے مصائب پہ مصائب تکالیف پہ تکالیف اور اوپر سے اپنے والد گرامی قدر کی جدائی کا صدمہ۔آپ خود فرماتی ہیں کہ مجھ پر سرکار کے وصال کے بعد وہ مصائب آئے کی اگر وہ دنوں پر آتے تو وبھی اندھیری راتوں میں بدل جاتے۔
صبت علی مصائب لوانھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
یہ عظیم خاتون،جنت کی ملکہ سرکار کی کے وصال کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں اور تین رمضان مبارک بروز منگل گیارہ ہجری کو اپنے والد محترم سے جا ملیں جنہوں نے جاتے ہوئے فاطمہ سے فرمایا تھا کہ میرے جانے کے بعد بہت جلد تم میرے پاس آجاو گی۔سیدی کے وصال کے وقت اصح روایت کے مطابق آپکی عمر شریفہ 29 سال تھی۔سیدہ کے میت کو اٹھاتے وقت پردہ کا بہت ہی مضبوط و اعلی اہتمام کیا گیا۔آپکی رحلت سے قبل مرد وزن کے جنازے کھلے ہوتے تھے۔آپ پیکر شرم وحیا تھیں اس لیے فرمایا کہ میرے جنازے کو رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے تاکہ کسی غیر محرم کی نگاہ میری میت پر بھی نہ پڑے۔آپکی نمازجنازہ حضرت علی نے پڑھائی اور ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس نے پڑھایا۔آپکو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
آپ کی قبر انور آج بھی فیوض برکات بکھیر رہی ہے۔عثمانیوں نے آپکے مزار پر بہت اعلی گنبد بنوایا جو آل سعود نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بے دردی سے شھید کردیا تھا۔ علامہ اقبال نے سیدہ کے مزار کو کچھ یوں محبت کا خراج پیش کیا۔
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفے است
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدہا برخاک اوپاشیدمی۔
ترجمہ:اللہ کی شریعت کے ساتھ وابستگی میرے پاوں کی زنجیرہے اور مجھے سرکار کے فرمان کا پاس ہے ورنہ میں سیدہ کے مزار کاطواف کرتا اور مزار فاطمہ کی خاک پر سجدہ ریز ہوتا۔
خدایا۔!
خواتین اسلام کو سیدہ کی سیرت پر عمل کی توفیق عطا فرما۔(آمین)