Ansaar abbasi articles 508

سیاستدانو! معاشرے کی تباہی پر خاموش کیوں ہو؟

عمومی طور پر ہماری توجہ سیاست پر مرکوز رہتی ہے، حکومت کیسی چال رہی ہے، عمران خان اور تحریک انصاف کیا اپنے وعدے پورے کر پا رہے ہیں، سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما کیا کہہ رہے ہیں، نیب کس کس کو پکڑ رہا ہے، کس کو رعایت دے رہا ہے،

مشرف کو دی جانے والی سزا ٹھیک تھی یا یہ پاکستان کے خلاف واقعی کوئی سازش ہے، نون لیگ کی لیڈر شپ کو مشرف کے معاملے پر چپ کیوں لگی ہے، حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں، آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لیے قانون سازی ہو پائے گی بھی یا نہیں،

معیشت میں کوئی بہتری آ رہی ہے اور کیا یہی عمران خان حکومت کے مستقبل کے لیے اصل چیلنج ہے؟ یہ اور اس طرح کے اور کئی سوالات اور معاملات ہی ہماری قومی بحث کا مرکز و محور ہیں اور عمومی طور پر سیاستدان، میڈیا اور ادارے وغیرہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہی وہ ایشوز ہیں جو دراصل پاکستان کا اصل مسئلہ ہیں۔

اس میں بہت حد تک حقیقت بھی ہے لیکن پاکستان میں ایسا بھی بہت کچھ ہو رہا ہے جو پورے معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ میں ٹی وی کم دیکھتا ہوں اور ڈرامے وغیرہ تو بالکل نہیں، دیکھنے کا شوق ہے نہ موقع ملتا ہے تاہم آئے دن مجھے لوگ بتاتے ہیں کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پہ دکھائے جانے والے ڈرامے ہمارے مذہبی اور معاشرتی اقدار کے برخلاف بنائے جا رہے ہیں۔

قوم کی توجہ سیاست کی طرف مرکوز ہے جبکہ ہمارے گھروں میں ہمارے بچوں اور فیملیز کو ایک ایسے کلچر سے روشناس کروایا جا رہا ہے جہاں شراب پینا، مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر اسلامی اور غیر اخلاقی تعلقات قائم رکھنا، فحاشی و عریانیت جیسے عام سی بات ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پرائیویٹ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لادینیت اور اسلام مخالف نظریات کو پھیلانے والے آہستہ آہستہ بڑھتے جا رہے ہیں۔

یہ معاشرے کی تباہی کا سامان ہیں لیکن اس کو درست کرنے اور خرابی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی تدبیر نہیں کی جا رہی۔ اگر کوئی ان معاملات پر سیاستدانوں اور حکمرانوں سے بات کرے تو وہ مانتے ہیں کہ یہ بہت خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن عمل میں سب کے سب زیرو ہیں۔

اللہ تعالیٰ قاضی حسین احمد مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے (آمین)، میں نے اُن کی زندگی میں جب بھی کسی ایسے معاملے پر اُن سے بات کی تو وہ فوری ایکشن میں آ جاتے۔ کوئی نو، دس سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے قاضی صاحب سے ایک ملاقات میں درخواست کی کہ ٹی وی چینلز کو فحاشی و عریانیت اور انٹرنیٹ کو فحش اور اسلام مخالف مواد سے پاک کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے اور پیمرا کو خط لکھیں۔

قاضی صاحب نے دوسرے ہی دن سپریم کورٹ اور متعلقہ اداروں کو خط لکھ دیے جس پر اُس وقت کے چیف جسٹس کی طرف سے فوری سوموٹو ایکشن لیا گیا۔ قاضی صاحب ان معاملات پر سپریم کورٹ، پی ٹی اے، پیمرا وغیرہ کا پیچھا کرتے رہے لیکن اُن کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد نہ جماعت اسلامی نے ان معاملات میں کوئی دلچسپی لی، نہ ہی کسی دوسری سیاسی پارٹی یا حکومت نے۔ پی پی پی کے دورِ حکومت میں مَیں ان معاملات پر اُس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے بھی ملا،

انہوں نے کچھ وعدے تو کیے لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ نون لیگ کی حکومت میں مَیں نے بارہا اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف صاحب کے سامنے بھی ان معاملات کو اٹھایا۔ میاں صاحب بھی مانتے تھے کہ ٹی چینلز فحاشی کو بہت فروغ دے رہے ہیں،

وہ یہ بھی وعدہ کرتے تھے کہ اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کریں گے لیکن یہ خرابیاں روز بروز بڑھتی ہی گئیں۔ یہ بات شاید جنوری یا فروری 2014ء کی ہے جب نواز شریف عمران خان سے ملنے بنی گالا گئے۔ اُس ملاقات میں دوسرے لوگوں کے علاوہ چوہدری نثار بھی شامل تھے جنہوں نے خود مجھے بتایا تھا کہ عمران خان نے ٹی وی پر کسی اشتہار یا گانے کو چلتا دیکھ کر نواز شریف سے درخواست کی کہ ٹی وی چینلز کو فحاشی سے روکا جائے۔ سابق وزیراعظم تو ایسا نہ کر سکے اور اب عمران خان حکومت بھی پاکستانی معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے والے ان عوامل کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔

حال ہی میں مجھے ایک خاتون اینکر پرسن نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ ٹی وی چینلز کو مغرب کے بجائے اسلامی اقدار کے مطابق چلایا جائے۔ اینکر پرسن نے بتایا کہ وزیراعظم تو خواتین اینکرز کے لیے دوپٹہ اوڑھنے کے بھی حق میں تھے لیکن اُنہیں اُن کے ساتھیوں نے سمجھایا کہ ایسا نہ کریں، میڈیا پیچھے پڑ جائے گا۔

گویا عمران خان ہوں، نواز شریف یا کوئی دوسرا سیاستدان، سب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے دینی اور معاشرتی اقدار کو تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے لیکن سب میڈیا سے ڈرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں لادینیت اور اسلام مخالف سوچ کو فروغ دینے والوں کو بھی کھلی چھٹی ہے اور اس معاملے میں بھی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی اپنے نوجوانوں کے ساتھ کھیلے جانے والے اُس گھنائونے کھیل کو دیکھ رہی ہیں جو اُن کی دنیا و آخرت کو تباہ اور خاندانوں کو برباد کر رہا ہے۔