حیدر جاوید سید 842

سوالوں کا برا نہیں منانا چاہئے

سوالوں کا برا نہیں منانا چاہئے

حیدر جاوید سید

سادہ سی بات یہ ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے اولین دن کی کارروائی سے مایوسی ہوئی۔ سنجیدگی کا فقدان تھا’خود پرستی مقدم تھی مسئلہ کشمیر پر۔کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری ہونے والا بیان’ ریاستی بیانیہ ہے مگر اس سارے معاملے میں دو سوال نظر انداز ہو رہے ہیں اولاً یہ کہ اگر بھارت کشمیر کے حوالے سے اپنے حالیہ اقدام پر امریکہ کو فروری اور پھر جولائی کے آخری ہفتے میں اعتماد میں لے چکا تھا تو کیا ہم مکمل طور پر اندھیرے میں رہے یا پھر سول و عسکری قیادت کا حالیہ دورہ امریکہ کے دوران وائٹ ہائوس اور پینٹا گان نے اس حوالے سے بتا دیا تھا؟
ثانیاً یہ کہ صدر ٹرمپ نے جب کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی تو وہ کشمیر کسے کہہ رہے تھے؟۔
( گو اب امریکہ یہ کہہ رہاہے کہ بھارت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا مگر بھارت اپنے موقف پر قائم ہے )
آپ منگل کے روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہوئی دھواں دھار تقاریر کو ایک طرف اٹھا رکھئے۔
فی الوقت جس امر پر غور و فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کشمیریوں کے حق آزادی (حق خود ارادیت) کا مقدمہ اب کیسے لڑا جائے گا۔ ہم میں سے کوئی بھی طبل جنگ بجا دینے کی دہائی نہیں دے رہا۔ جنگ تعمیر و ترقی کی نہیں بربادیوں کی داستان لکھتی ہے۔
وہ خود ساختہ عسکری ماہرین جو نجی چینلوں پر ہمیں خواب سنا رہے ہیں یا کسی کو محمد بن قاسم بننے کا مشورہ دے رہے ہیں تاریخ سے یکسر نا بلد ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ 72گھنٹے قبل بھارت نے جو کیا اس کاجواز نواز شریف کے دور اقتدار میں سے تلاش کرنے والے مجنوں ات اٹھائے ہوئے ہیں۔
ہم عرض کئے دیتے ہیں
” چوروں’ لٹیروں اوراقربا پروری کے ادوار( پچھلے دس سالوں) میں آخر بھارت کو یہ جرأت کیوں نہ ہوئی کہ وہ اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کرے اپنے زیر تسلط کشمیر میں سے وادی کو صوبہ کا درجہ دے اور لداخ و جموں کو براہ راست مرکز کا حصہ بنا دے؟
ایک جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ لداخ و کارگل کاکچھ حصہ نواز شریف نے بھارت کو دیا تھا۔
حضور کوئی ثبوت ہے یا دشمنی اور نفرت کا “مچ” مارنا مقصود ہے۔
سیاچن کس کے دور میں بھارت کے قبضہ میں گیا۔ کس نے کہا تھا سیاچن پر تو گھاس بھی نہیں اگتی؟۔
ہم جس سوال کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ بھارتی اقدام اور ہمارے ہاں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلائے جانے کے درمیانی 34گھنٹوں میں سفارتی طورپر کیا پیش رفت ہوئی؟ نہیں ہوسکی تو اس کی وجہ کیا تھی؟۔

موجودہ حالات میں چین کا یہ موقف خوش آئند ہے کہ
” مقبوضہ کشمیر و لداخ پر بھارتی اقدام ہماری خود مختاری کے لئے خطرہ ہے’ قانون سازی کے باوجود مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ رہے گا”۔
بھارتی اقدام کے اگلے چند گھنٹوں بعد ہمارے اعلیٰ سطحی وفد کو چین کے دارالحکومت میں ہونا چاہئے تھا۔ ایران’ ترکی’ روس اور امریکہ سے رابطہ بہت ضروری تھا۔
بجا ہے کہ وزیر اعظم نے ترکی اور ملائشیاء سے بات کی دونوں ملکوں کا جواب کیا ہے۔
خطے میں طاقت کے اس بے رحمانہ مظاہرے اور بھارتی بے لگامی کو حد میں رکھنے کے لئے ہماری حکمت عملی کیا ہوگی۔
وزیر اعظم کہہ چکے کہ بہادر شاہ ظفر کی بجائے ٹیپو سلطان کا راستہ اختیار کریں گے۔
حضور اس راستے پرچلنے سے قبل کی سیاسی’ سفارتی اور عملی ضروریات کیا ہوں گی؟
اس پر دو آراء نہیں کہ بھارت کے حالیہ اقدام نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز کشمیری قیادت کو بھی مشتعل کردیا ہے۔ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے بیانات ہمارے سامنے ہیں۔
مودی سرکار کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ اس نے دو آئینی سمجھوتوں اور پابندیوں کو روند ڈالا ہے۔
اولاً شیخ عبداللہ اور جواہر لعل نہرو کے درمیان ہوئے سمجھوتے اور ثانیاً فاروق عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان 1974ء میں ہوئے معاہدے کو ہر دو معاہدوں میں صاف لکھا ہے کہ بھارت کشمیر کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گا وہ ریاستی اسمبلی کی منظوری سے مشروط ہوگا۔
پھر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی
(بی جے پی) کے حالیہ انتخابی منشور میں متنازع کشمیر کے ”کریا کرم” کا سامان موجود تھا ۔
پاکستان جانتا تھا کہ اگر مودی اور جنتا پارٹی کامیاب ہوئے تو ہندو توا کی سیاست کیا گل کھلائے گی۔ پھر ہم نے پیش بندی کے لئے کیا اقدامات کئے؟
ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیا جانا زیادہ مناسب ہے بین ڈالنے سے کہ ہم سے خطا ہوئی۔
حکومتی موقت سے متفق نہ ہونے کے باوجود یہ سوال اہم ہے کہ کیاحالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی قیادت سے جن شرائط پر معاملات طے پائے اور امداد بحال ہوئی وہ شرائط کم از کم پارلیمان کے سامنے لائی جائیں۔ تاخیر کی صورت میں افواہوں کو تقویت ملے گی۔

کیا ہم عصری شعور کے ساتھ اس زندہ حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ خود کشمیری کیا چاہتے ہیں اور یہ کہ کشمیریوں کے واحد نمائندے صرف علی گیلانی ہی نہیں دیگر قائدین بھی موجود ہیں۔
کشمیریوں کی اجتماعی سوچ کیاہے حق خود ارادیت برائے الحاق یا خود مختاری ؟۔
میری دانست میں کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے۔ موجودہ حالات میں کشمیر پالیسی بناتے وقت معاملے کے دونوں پہلو مد نظر رکھنا ہوں گے۔
یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ جناب وزیر اعظم نے 2016ء میں نیو یارک ٹائمز اور پھر آزاد کشمیر کے ایک اخبار کو دئیے گئے انٹرویوز میں کشمیر کی تین حصوں میں تقسیم کے فارمولے کی بات کی تھی۔
تین حصوں میں تقسیم کا مطلب ہمیشہ سے یہی سمجھا گیا کے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پاکستان کے۔ مقبوضہ وادی بھارتی صوبہ اور لداخ و کارگل بھارت کی مرکزی حکومت کی نگرانی میں۔ تین سال قبل جناب عمران احمد خان نے جو بات کہی وہ مشرف فارمولے کے تناظر میں تھی۔ بدقسمتی سے بھارت نے جو اقدام کیاوہ یہی ہے جو مشرف کہتے تھے یا عمران خان۔
اب جو نازک سوال اٹھ رہے ہیں ان پر برا منانے کی بجائے عوام کو بتایا جائے کہ درون خانہ کیا کھچڑی پک رہی تھی اور یہ کہ کیا یہ کسی پس پردہ سفارتکاری کا نتیجہ ہے؟

ادھر بھارت میں متحدہ عرب امارات کے ایک اہم سفارتکار نے بھارتی اقدام کو اس کا داخلی مسئلہ قرار دیا ہے۔

چند ماہ قبل منعقد ہونے والی او آئی سی سربراہی کانفرنس میں خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب بھارت کو مندوب کا درجہ دلوانے کے لیے پیش پیش تھے
پھر ترکی اور ایران کی جانب سے پاکستانی موقف کی تائید اور ان کے دباو پر بھارتی وزیر خارجہ کو مندوب کی بجائے مبصر کی حثیت سے بلایا گیا اور متحدہ عرب امارات کے اصرار پر اس سے خطاب بھی کروایا لیا گیا ۔
کیا اب موجودہ حالات میں خلیجی ریاستیں اور سعودی عرب ہمارے ساتھ اخلاقی اور سفارتی طور پر کھڑے ہوں گے ؟ آگے بڑھنے سے قبل بہر طور ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرلینا چاہیے
بشکریہ
روزنامہ مشرق پشاور
9اگست 2019ء