939

سحر(جادو) کی حقیقت مفتی گلزار احمد نعیمی

سحر(جادو) کی حقیقت
علامہ زبیدی نے کہا:تہذیب میں مذکور ہے کہ کسی چیز کو اس کی حقیقت سے دوسری حقیقت کی طرف پلٹ دیناسحر (جادو) ہے۔
(تاج العروس ج۳،ص۸۰۲،داراحیا ء التراب بیروت)
ابن منظور افریقی نے کہا:سحر(جادو) وہ عمل ہے جس میں شیطان کا تقرب حاصل کیا جاتاہے۔ اور اسکی مدد سے کوئی کام کیا جاتا ہے نظر بندی کو بھی سحر(جادو) کہتے ہیں۔ایک چیزکسی صورت میں دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہ اسکی اصلی صورت نہیں ہوتی۔ جیسے دور سے سراب پانی لگتا ہے اور تیز رفتار سواری پر بیٹھے ہوئے شخص کو ہر چیز دوڑتی لگتی ہے۔ کسی چیز کی کیفیت کو پلٹ دینے کو بھی سحر(جادو) کہتے ہیں۔جیسے کوئی بیمار کو درست کرد ے وغیرہ۔
(لسان العرب ج۴ ص ۸۴۳ملخصاً، مطبوعہ نشر ادب الحوذہ قم ایران)
علامہ راغب اصفہانی نے کہاکہ سحر(جادو) کا کئی معانی پر اطلاق ہوتا ہے۔
۱۔نظر بندی اور تخیلات جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔جیسے شعبد ہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے لوگوں کی نظریں پھیر دیتا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا: فلما القوا سحروا اعین الناسِ واستر ھبوھم۔
ترجمہ:تو جب انہوں نے (لاٹھیاں اور رسیاں)ڈالیں تو لوگو ں کی آنکھوں پر سحر(جادو)کردیا اور ان کو ڈرایا۔(الاعراف:۶۱۱)
فا ذا حبا لھم وعصیھم یُخَیّلُ اِلیہ من سحرم انھا تسعٰی (طٰہٰ:۶۶)۔
ترجتو اچانک کے جادو سے موسی کو خیال آیا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔
۲۔ شیطان کا تقرب حاصل کر کے اسکی مدد سے کوئی غیر معمولی کام کرنا۔ قرآن مجید میں ہے۔ ولکن الشیٰطین کفروا یعلمون النا س السحر (البقرہ:۲۰۱)
ترجمہ:البتہ شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔
۳۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جادو سے کسی چیز کی ماہیت و صورت بدل جاتی ہے۔ لیکن یہ بات حقیقت نہیں ہے۔
۴۔ سحر (جادو) کسی چیز کو کُوٹ اورپیس کر باریک کرنے کو کہتے ہیں۔
سحر(جادو) کا شرعی معنی: جس کام کو انسان خود نہ کرسکے وہ شیطان کی مدد اور تقرب کے بغیر پورا نہ ہواس کے لیے شیطان کے شر اور خبائث کے ساتھ مناسبت ضروری ہو،اسے سحر (جادو) کہتے ہیں۔
جو چیز مختلف حیلوں، آلات، دواؤں اور ہاتھ کی صفائی سے عجیب و غریب کام کیے جاتے ہیں وہ سحر(جادو) نہیں ہیں
(علامہ بیضاوی، انوار التنزیل (درسی) ص ۴۹۔۵۹ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
سحر(جادو) ایک حقیقت ثابتہ ہے اور اس سے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جیسے سورۃالفلق ومن شر النفٰثٰت فی العقد۔
جمہور مسلمین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورۃ الفلق اس وقت نازل ہوئی جب لبید بن اعصم یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم پر سحر(جادو) کیا تھا۔امام بخاری نے آپ صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم پر جادو کیے جانے کے حوالے سے ایک طویل حدیث حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔اس میں لبدین اعصم کے آپ پر جادو کرنے کی تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے خود بیان کی۔ آپکی جوحیثیت بحیثیت بشر ہے اس کے تحت آپ پر اسکا اثر ہوا بحیثیت نبی آپ پر کچھ اثر نہ ہوا۔آپ کے کار نبوت میں اس کی وجہ سے کوئی اثر نہیں پڑا۔
اور بھی روایات آئیں ایک باندی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر سحر(جادو) کیا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر پر کیا گیا تو آپ کی کلائی ٹیڑھی ہوگئی۔
مذاہب اربعہ:
امام مالک اور امام احمد کے نزدیک ساحر مطلقاً کافر ہے۔امام شافعی اور امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک ساحر مطلقاً کافر نہیں ہے۔ امام مالک اور احمد کہتے ہیں کہ سحر(جادو) کفریہ عقائد اور کفریہ اقوال و افعال کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لیے ساحر مطلقاً کافر ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ سحر (جادو) عام ہے یہ کفر کے ساتھ اور بغیر کفر کے بھی واقع ہو سکتا ہے۔اس لیے سحر(جادو) مطلقاً کفر نہیں ہے البتہ جس سحر (جادو) میں کفر کا دخل ہو وہ۔
سحر (جادو) کا حکم شرعی:
حضرت ابو ھریرہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارصلی اللہ علیہ وا ٰ لہ وسلم نے فرمایا:سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچوصحابہ نے پوچھا وہ کون سے کام ہیں؟فرمایا:اللہ کے ساتھ شریک کرنا،جادوکرنا،ناحق قتل،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا، میدان جہاد سے بھاگنااور پاک دامن مسلمان عورت پر تہمت زنا لگانا۔ (بخاری ج۱ص۸۸۳)
حضرت عمر،حضرت عثمان،حضرت ابن عمر، حضرت حفضہ کا قول ہے ساحر کو بطور حد قتل کیا جائے گا۔ حضرت جنید بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاساحر کی حد اس کو تلوار سے مارنا ہے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہر ساحر کو قتل کر دو۔(ابو داؤد)
سحر(جادو) کا لفظ قرآن میں 60دفعہ آیا ہے۔