1,160

خطبہ کوہ صفاء : مفتی گلزار احمد نعیمی

خطبہ کوہ صفا

افادات و اثرات

سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام صفات عالیہ کامظہر اتم مبعوث فرمایا۔ آپکی حیات طیبہ کا ہر پہلو اتنا متاثر کن ہے کہ جسے بھی چھیڑا جائے وہی حر ف آخر لگتا ہے۔ آپکو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جوامع الکلم عطافرمائے۔ آپکی گفتگو کا ایک ایک لفظ دل کی اتہا ہ گہرائیوں میں اتر جانے والا ہے۔آپ کی ہر بات دل موہ لینے والی ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا ”پیغمبر کی بات، باتوں کی پیغمبر ہوتی ہے“ آپ کے فرامین کی حقانیت مرور زمانہ کے ساتھ کمزور نہیں پڑی بلکہ ہمیشہ کی طرح ترو تازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انسانیت کی ہدایت کے لیے ہزاروں نہیں لاکھوں فرامین زبان حق ترجمان سے ارشاد فرمائے۔ آپ کے خطبات آج بھی اس اندھیری دنیا کو مستنیر فرما رہے ہیں۔ خطبہئ کوہ صفا ہو کہ خطبہئ حجۃ الوداع ہر ایک متلاشیان حق کے لیے باعث ہدایت بھی ہیں اور باعث تسکین قلوب بھی۔ آج کی نشست میں ہم خطبہئ کوہ صفا پر اظہار خیال کریں گے اسکی اہمیت و افادیت و اثرات زیر بحث لائیں گے۔سب سے پہلے ہم اپنے قارئین کرام کی خدمت میں خطبہئ کوہ صفا پیش کرتے ہیں۔ اس خطبہ کو تمام مفسرین، محدثین اور مؤ رخین نے اپنی مصنفات کا حصہ بنایا ہے۔ یہ ایک مختصر خطبہ ہے جور سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا تھا اسی وجہ سے اہل علم نے اسے ”خطبہئ کو ہ صفا“ کا عنوان دیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ اس کو روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا کہ جب آیت وانذر عشیرتک الاقربین(اور آپ اپنے قریب کے رشتہ داروں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صفا پر چڑھے اور بلند آوازسے فرمانے لگے”اے بنی فہر!، اے بنی عدی!قریش کے قبائل کو یہاں تک کہ وہ سب جمع ہوگئے، جو خود نہیں آسکتا تھا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا تا کہ معاملہ کو خود دیکھ سکے۔ جب ابولہب اور قریش آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تمہارکیا خیال ہے کہ اگر میں تمہیں متنبہ کروں کہ پہاڑی کی دوسری طرف گھوڑ سوار وں کا ایک جتھہ تم پر حملہ آور ہونے کو ہے۔ تو کیا تم میری اس بات کی تصدیق کرو گے؟ سب نے کہا کیوں نہیں۔ ہمارا تجربہ تو آپ کے صادق ہونے کاہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تو پھر میں تمہیں بالکل سامنے والے عذاب شدید سے ڈراتاہوں۔ اس پر ابولہب نے کہا: تمہارے لیے سارا دن تباہی ہو (معا ذ اللہ) کیا اسی لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس پر تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبَّoمَا أَغْنَی عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَo(ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے، اس کے مال اور کمائی نے اسے کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔)

(البخاری، کتاب التفسیر، رقم الحدیث، ۰۷۷۴، داراحیاء التراث العربی بیروت، لبنان)

یہ خطبہئ کوہ صفا ہے جو عام و خاص کے لیے تھا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قریش کے قبائل اور دیگر ساکنان مکہ کو خطاب فرمایا۔ اس میں روئے سخن عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں سب کی طرف تھا۔ اسی خطبہئ کے بعد امام بخاری علیہ الرحمۃ نے ایک اور حدیث روایت فرمائی ہے اور یہ بھی میرے نزدیک خطبہئ کو ہ صفا کا حصہ ہی ہے۔ اس میں مخاطبین ایک دفعہ پھر وہی قریبی صلبی و خونی رشتہ دارہیں۔ اسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے۔ امام ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے سعید ابن مسیب اور ابو سلمۃ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی کہ جب اللہ نے وانذر عشیرتک الاقربین نازل فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا:اے گروہ قریش!یا ایسا ہی کو کلمہ ارشاد فرمایا: تم اپنی جانوں کو خرید لو میں تمہیں عذاب خداوندی سے نہیں بچا سکتا۔اسے بنی عبد مناف!میں تمہیں عذاب خداوندی سے نہیں بچا سکتا اسے عباس بن عبد المطلب!میں آپ کو عذاب خداوندی سے نہیں بچا سکتا۔ اے صفیّہ رسول خدا کی چچی!میں آپ کو عذاب خداوندی سے نہیں بچا سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم و سلام اللہ علیہا) میرے مال سے جو سوال کرو لیکن میں آپ کو عذاب خداوندی نے نہیں بچا سکتا۔

(البخاری، کتاب التفسیر، رقم الحدیث، ۱۷۷۴، داراحیاء التراث العربی بیروت، لبنان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مکی زندگی کے تبلیغی مراحل کو ہم دیکھتے تو پتہ چلتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حراسے اتر کرسوئے قوم تشریف لائے

تو اس پیغام ربانی کے لیے آپ نے ابتد اً ان لوگوں کا انتخاب فرمایا جو مکۃ المکرمہ کے نہایت سلیم الفطرت اور بہت ہی مثبت انداز فکر کے حاملین تھے۔ اہل خانہ اور بہت ہی قریبی دوستی کے رشتہ میں منسلک لوگ الٰہی دعوت کا میدان قرار پائے۔یہ وہ لوگ تھے جو آپ کے شبانہ روز کے معمولات زندگی سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ بہت حد تک شریک سفر و شریک کار بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے سامنے آپکی حق پرستانہ زندگی بالکل کھلی کتاب کی مانند تھی۔ ان میں آپکی شریک حیات ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبرٰی سلام اللہ علیہا، آپکے چچا زاد بھائی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ لکریم آپ کے متبنی بیٹے حضرت زید بن حارثہ اور آپ کے ہم جلیس سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے۔ ان لوگوں کے اذہان اس حقیقت کا ادراک کرچکے تھے کہ ایسے خصائل حمیدہ کا حامل کوئی اللہ کا فرستادہ پیغمبرہی ہو سکتا ہے جو خصائل سیدنا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب میں پائے جاتے ہیں۔ گویا یہ لوگ بس اعلان نبوت کے منتظر ہی تھے۔ ادھر اعلان ہوا، اُدھر انہوں نے اس پر لبیک کہہ دیا۔ پھر سید نا صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدو جہد سے حضرت عثمان غنی، حضرت سعد بن ابی وقاص، سیدنا بلال حبشی اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنھم جیسے اہل مکہ کی جلیل القدر شخصیات اسلام میں داخل ہوگئیں۔ حتیٰ کہ اس ابتدائی مرحلہ میں مکہ کے ہر قبیلہ سے ایک دو افراد اس نئی اسلامی تحریک کا حصہ بن گئے۔ یہ تین سال پر محیط ابتدائی مرحلہ بہت ہی زیر زمیں اور انفرادی روابط کا دورتھا۔ اس مرحلہ میں قرآن مجید کی اترنے والی آیات بھی اپنی فصاحت و بلاغت اور معنوی اثرات کے ساتھ کلام عرب کو مکمل طور پر تسخیر کر چکی تھیں۔

اب اس اسلامی تحریک میں اہل مکہ کے تقریباً پنتالیس(45)معتبر افراد حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے اگلے مرحلے میں داخل کرنے کا حکم دیا اور اب اسکا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت فرماتے ہیں کہ جب آیت (وانذر عشیرتک الاقربین) نازل ہوئی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اپنے خاندان کو اکٹھا کیا یہ تیس افراد تھے، جب یہ کھا پی چکے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمہ لے لے اور میرے بعد میرے وعدے پورے کرے۔ (ایسا کرنے والا) وہ جنت میں میرا ساتھی اور میری اہل بیت میں میرا نائب ہوگا۔ ایک شخص نے کہا آپ تو سمندر ہیں آپ کے ساتھ کون کھڑا ہو سکتا ہے۔ آپ نے اپنی بات تین دفع دہرائی مگر کوئی شخص آپکی بات پر رضا مندنہ ہوا تو میں (علی) نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں تیار ہوں۔(تفسیرابن کثیر، حافظ عما دالدین ابوالغدا ابن کثیر،اردو، مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور)۔ اسے تاریخ میں دعوت ذوالعشیرہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒنے اسی دعوت ذو العشیرہ کو ایک اور سند کے ساتھ قدرے تفصیل سے روایت کیا ہے۔ جس میں بکری کے بچہ کا ذبح کرنا اور دودھ کے ایک بڑے برتن کا مدعوین کو پیش کیے جانے کاذکر ہے اورتمام نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور دودھ پیا لیکن نہ کھانے میں کوئی کمی واقع ہوئی اورنہ ہی دودھ میں۔ کھانے پینے کے بعد آپ نے جب دعوت حق دی تو اس معجزہ کا بھی ذکر فرمایا۔ تین دفع آپ نے دعوت دی لیکن ہر دفعہ حضرت علی ہی کھڑے ہوئے اور آخری دفعہ آپ نے انہیں بیعت فرمایا۔ اس دعوت ذوالعشیرہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوہ صفا پر چڑھ کر خطبہ ارشاد فرمایاجس کا تذکرہ ہم نے شروع میں کیا ہے۔

یہ خطبہ ایک عظیم پکارتھی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اور صدیوں کے بعد خدائے واحد کی طرف بلانے والی یہ پہلی ہستی تھی جس نے بت پرستی کے نظام کے خلاف کوہ صفا پر کھڑے ہو کر پہلی ضرب لگائی۔ اس پکار سے پورا نظام کفر ہل کر رہ گیا۔ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے لگی،وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے بت پرستی کے نظام کے خلاف اتنی مضبوط آواز ہمارے اندر سے ہی بلند ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ابو لہب نے دریدہ دہنی کی اور کہا: تو سارا دن غارت ہو اس لیے بلایا تھا ہمیں؟ اب میرا رب فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ اکڑی گردنیں اپنے حبیب کے سامنے جھکا دی جائیں گی یا توڑ دی جائیں گی۔ اسی وجہ سے عین اس ہزرہ سرائی کے وقت فرشتہ جبرائیل میں پیغام ربانی لے آیا تبت یدا بی لھب وتب (ابو لھب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہی ہو جائے) جس رب نے موسیٰ و ہارون علیہماالسلام کوفرعون کے سامنے جاتے ہوئے اپنی مدد کا یقین یوں دلایا تھا۔إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَیٰ(طٰہٰ،۶۴)۔(جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں میں سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی۔۔۔ اسی رب نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرمایا:فا صدع بماتؤمر واعرض عن المشرکین (النخل:94)”اے جان کائنات!جو آپ کو کہا گیا اسے کھول کھول کر بیان فرما دیجیے اور ان مشرکین سے رخ انور پھیر لیں،،ان کی باتوں پر دھیان مت دیں۔ اب آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔ اس تحریک کو ابو لہب، ابو جہل حتیٰ کہ مکہ کا بڑے سے بڑا دشمن خدا بھی کبھی روک نہیں سکے گا۔ اب کامیابی ہی کامیابی ہے، آپ ہلاک کیوں ہوں ہلاک تو وہ ہو جو خدا کے مقابلے میں آکھڑا ہو ا ہے۔ آپ تو حق کے پرستار ہیں۔آپ تو نمائندہئ پر وردگار ہیں اور آپ تو اپنے رب کی جانب سے نبی مختار ہیں۔ آپ بڑھتے جائیں ہر قدم پر کامیابی آپ کے قدم چومنے کے لیے کھڑی ہو گی۔

میرے محترم قارئین:

٭خطبہئ کوہ صفا کے ایک ایک جملہ اور ایک ایک سطر پر غور فرمائیں تو آپ پر خود بخود یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ جب آپکی دعوت کی بنیاد حق و صداقت پر مبنی ہو تو آپ کی مخالفت تو ہو سکتی ہے مگر آپ کی دعوت کو جھوٹا قرار نہیں دیاجا سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ کی طرف دعوت دینے سے پہلے اپنی صداقت کی انہی لوگوں سے تصدیق کروائی جنہیں آپ دعوت حق دینے جارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ صفاء کی دوسری جانب شہسواروں کا ایک گروہ تم پر حملہ آور ہونے کو ہے تو کیا تم مان لو گے؟ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہم نہیں مانیں گے۔ سب نے آپکی صداقت کی بھرپور گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صادق ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بو لا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ کی توحید اور اپنی نبوت کی بنیاد اپنی صداقت پر رکھی اور اس دعویٰ کی حقانیت کے لیے سب سے بڑی دلیل صداقت کی پیش کی۔ سب نے اس دعوت کو سناکسی نے اس وقت قبول نہیں کیا لیکن کوئی یہ بھی کہنے کے قابل نہیں تھا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ وہ پہلے آپکی صداقت کی گواہی دے چکے تھے، ابو لھب نے بھی غلاظت کا اظہار تو ضرور کیا مگر جھٹلا نہ سکا۔

٭اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آنے والے ہر مبلّغ کے لیے ایک ٹرینڈ سیٹ کر دیا کہ وہ اپنی دعوت کی بنیاد اپنی شخصیت کی سچائی پر رکھے۔ جب آپکی دعوت کی بنیاد سچائی پر ہوگی تو معاشرے کا بڑے سے بڑا شخص بھی اسے نہیں جھٹلا سکے گا۔ اگر مقابلہ میں آئے گا تو خس وشاک کی طرح دعوت کے سیل رواں میں بہہ جائے گا۔ اگر آپ سچے ہوں تو اسی سردار عبد المطلب کا بیٹا ابو لہب بھی آپکا مقابلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور اگر آپ سچے ہوں تو اسی عبد المطلب کا پوتا آمنہ کا در یتیم سب سرداروں کی گردنوں کو جھکا دیتا ہے۔ اللہ کی تائید چہرے کی وجاہت کو نہیں کردار کی خوبصورتی کو دیکھتی ہے۔ اسی سرزمین پر یہ اعلان بھی لوگوں نے سنا إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ oوَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ أَفْوَاجا:جب اللہ کی مدد و نصرت آن پہنچی تو آپ نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔(النصر:۱،۲)

٭خطبہئ کوہ صفا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو طریقہ کار اختیار فرمایا وہ بالکل رائج الوقت طریقہ تھا۔ آپ نے لشکر جرار کا مفروضہ قائم فرمایا، یہ ایسا مفروضہ تھا جس کاکوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ مشکل وقت میں اہل عرب بالکل ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ اس سے ہم ایک اہم اصول اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک داعی کو اپنی دعوت موجودہ حالات کے تناظر میں پیش کرنی چاہیے۔ اگر ہم اپنے خطبات میں لمحہ موجودکی امثال دینے سے قاصر رہیں تو ہم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ لوگوں کی فکر اور سوچ کے ساتھ آپ کے خطبہئ کی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ ہمارے خطباء وعلماء کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خطبہئ کوہ صفا کے اس پہلو کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا۔ ایک خطیب کی وعظ و نصیحت مؤثر بنانے کے لیے یہ تیر بحدف نسخہ ہے۔

٭آپ کے خطبہ میں ہمیں بلا کا اعتماد نظر آتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے رک کر ذرا غور کریں کہ آپ کس نظام کے ساتھ ٹکرانے جا رہے تھے۔ وہ نظام جس پر اہل مکہ کی معیشت منحصر تھی۔ ان کی بودو باش، انکی زندگی کے تمام معاملات بت پرستی کے نظام کے تحت چل رہے تھے۔ لیکن آمنہ کے در یتیم نے اس مشکل ترین مرحلہ میں جس خود اعتمادی کے ساتھ اپنا موقف پیش فرمایا وہ تائید ا یزدی کے بغیر چنداں ممکن نہیں تھا۔ کٹھن مرحلہ میں اہل حق ہمیشہ اسی خود اعتمادی کے ساتھ باطل کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاندان پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے کوہئ صفا پر خودی اعتمادی، اصحاب الفیل کے سامنے آپکے دادا عبد المطلب کی خود اعتمادی کا پر تو نظر آتی ہے۔ ابرہا نے جب اونٹوں پر قبضہ جما لیا۔ مکہ کے سردار اپنے اونٹوں کی واپسی کا تقاضہ فرماتے ہیں۔ ابرہا قہقہلگاتا ہے کہ ہم تو تیرے کعبہ کو مسمار کرنے آئے ہیں اور آپ اونٹوں کی فکر میں ہیں تو فرمایا:کعبہ کا مالک کعبہ کی خود حفاظت فرمائے گا میں نے تو اپنے مال کی حفاظت کرنی ہے۔ آج 40سال بعد کوہ صفا پر ہمیں عبد المطلب کے اعتماد کی جھلک میرے کریم مصطفےٰ کے لہجہ میں نظر آتی ہے۔ اس لیے اے داعیان حق!اپنے دعویٰ میں صرف سچا ہونا کافی نہیں ہے لہجہ کا پر اعتماد ہونا بھی ازبس ضروری ہے۔ پر جلال و پر اعتماد لہجہ موجب تائید خداوندی بنتاہے۔ سورہئ لھب کا اس وقت نزول اسی خود اعتمادی کا مجھے ثمر لگتا ہے۔

اپنے مشن کی پہلی بات اور نہایت زوردار لہجہ میں فرمانا اہل مکہ کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اب یہ توحید کا مشن رک نہیں سکتا۔ پتہ تھا کہ کوہئ صفا کے دامن میں کھڑے لوگوں میں بہت چند ہیں جو میرے ساتھ ہیں باقی سب مخالف ہیں۔ مخالفت کے اس جلومیں پیغام توحید کا اعلان کرنا اصل میں اس دعوت کو اب چار دانگ عالم میں پھیلانے کی جانب پہلا قدم تھا۔ مصطفے ٰصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیغام کی حقانیت مخالفین کے سامنے واضح ہوگئی۔ ساکنان مکہ کو علم ہو گیا کہ ہم بت پرستی کے نظام کے رکھوالوں کے مقابلہ کے لیے خدا پرستوں کی ایک عظیم تحریک کا بطن مکہ سے ہی آغاز ہو چکا ہے۔ جب اس اعلان کے نتیجے میں ابو لہب نے مخالفت کی تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ثابت فرما دیا کہ اب بت پرستوں کو خدا پرستوں کی طرف سے جواب ضرور ملے گا چاہے مخالفت کرنے والا میرا اپنا چچا ہی کیوں نہ ہو۔ قربان جائیں کائنات کے اس اعلیٰ ترین ظرف رکھنے والے خاتم الانبیاء پر کہ جس نے وقت کے طاغوت کو اپنے کردار کے ذریعے شکست دی۔

٭خطبہئ کوہ صفا کے آخری حصہ میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے رحم کے رشتہ داروں کو یہ فرمایا کہ میں تمہیں عذاب خداوندی سے نہیں بچا سکتا اسی سے میرے محترم قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ سرکار قیامت کو کسی کی شفاعت نہیں فرمائیں گے۔ یہ دعوت کا بالکل ابتدائی مرحلہ تھا جس میں اللہ کی توحید کی طرف اپنے خونی رشتہ داروں کو مؤثر انداز سے مائل کرنا ضروری تھا اور عقیدہ توحید کو انکے ذہنوں میں راسخ کرنا وقت کا تقاضا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں عمل کی طرف اور عقیدہ کی درستگی کی طرف راغب فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان پر واضح فرما دیا کہ انسانی نجات کا انحصار اعمال پر ہے نہ کہ رشتہ داری پر۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ آپ قیامت کو اپنے گنہگارغلاموں کی شفاعت فرمائیں بلکہ شفاعتی لِا َھل الکبائر کے فرمان عالیہ کے مطابق شفاعت ہوگی اور امت کے بڑے بڑے گنہگار، کبائر کا ارتکاب کرنے والے بھی میرے آقاء کی شفاعت کبریٰ سے مستفیض ہوں گے۔ انہی شفاعت کے طلب گاروں میں راقم الحروف بھی شامل ہوگا۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ اس عاصی کوبھی روز محشر اپنے نبی کی شفاعت کبریٰ کا حقدار ٹھرائے۔(آمین)

اک رند ہے اور مدحت سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمت سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرت سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگر ؔاور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت سلطانہ مدینہ

(جگر مراد آبادی)