814

حسد، منفی رو یے اور شکر کی طاقت

حسد، منفی رو یے اور شکر کی طاقت، منفی رو یے اور شکر کی طاقت

اس دنیا میں زند گی گزار نا آ سان نہیں ہے، خا ص کر ایسے معا شرے میں جہا ں منفیت اور مثبت قو تو ں کا مقا بلہ جا ری ہو اورمنفی مثبت پر حا وی ہو ں۔ جب معاشروں میں بے انصا فی، بے راہ روی، لا قا نو نیت، غر بت، افلا س کا بو ل با لا ہو اور لو گو ں کو دو وقت کی رو ٹی کا حصو ل مشکل ہو تو اس معا شرے میں منفی لو گ پرو ان چڑ ھتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعدا د میں ہو تے ہیں کہ پو رے کے پو رے معا شر ے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور سب ختم کر دیتے ہیں۔ میں نے 2015ء میں GaryHartfied کی ایک کتا ب Standپڑ ھی۔ یہ کتاب معا شر ے میں مو جو د انسا نو ں کے ان رو یو ں پر مشتمل تھی جو اچھے بھلے انسان کو اندر سے تو ڑ دیتے ہیں، انہیں کھو کھلا کر دیتے ہیں، اپنی را ہ سے ہٹا دیتے ہیں اور اسے مثبت کی طرف جاتے جا تے منفی کی جانب مو ڑ دیتے ہیں۔ اب اگر آپ آ گے بڑھ رہے ہیں، مثبت کی طر ف ما ئل ہیں تو آ پ کو ان لو گو ں کی پہچان مشکل نہیں۔ ایسے لو گ آ پ کے خو ن کے رشتے بھی ہو سکتے ہیں، مگر یہ ہو تے ہیں، سا نپ کی طر ح آ پ کے اندر زہر دا خل کرتے رہتے ہیں اور آ خر میں آ پ کو خو د زہر بنا دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ منفی لو گ خو د تر قی کر تے جائیں، اونچے عہدو ں پر بھی پہنچ جائیں، مگر ان کا سانپ زند ہ رہتا ہے اور یہ اپنے سے نیچے کسی کو تر قی کر تا دیکھیں تو ڈسنے لگتے ہیں۔ ان سب میں ایک قدر مشتر ک ہوتی ہے اور وہ قدر حسد کی ہے اور یہی وہ آ گ ہے جو انہیں دنیا اور آ خر ت دونو ں میں جلا دیتی ہے اور حا سد کے شر سے بچنا ہی ایسے معا شرے کے آ گے بڑھنے والے لو گو ں کا اصل فن ہو تا ہے اور جو اس سب سے لڑ لیتے ہیں، وہ آ گے نکل جاتے ہیں اور جو اس کا مقا بلہ نہیں کر سکتے وہ ہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ ایک رات اسلا م آ با د کی رو ما نو ی شام میں سخت ما یو سی کا شکا ر تھا، میں نے اپنے دو ست معروف مو ٹیو یشنل سپیکر قاسم علی شاہ کو فو ن کیا، وہ مصروف تھے، مگر رات کے کسی پہر ان کا فو ن آ گیا۔ میں گھر سے با ہر نکلا اور بالکونی پر ان سے بات کرنے لگا۔ یہ میر ے گھر کا وہ گو شہ ہے جہا ں میں جا کر اگر کسی کو فو ن کروں تو میں اس کو صرف سننا چا ہ رہا ہوتاہو ں، وہ وجہ جاننے لگے تو میں بتانے لگا کہ جب تک ناکامی تھی، تو کوئی سا تھ نہیں تھا، جب گھر میں مشکل وقت آ یا تو کوئی ساتھ نہیں تھا۔ اب ہم آ گے بڑھنے کی ٹھا ن چکے ہیں تو ہر راستے میں رکا و ٹ ہی کھڑی نظر آ نے لگتی ہے اور یہ رکا و ٹ بعض اوقا ت وہ ڈالتے ہیں، جن سے حو صلہ ملنا چاہیے، جن کو سب مل چکا ہے، ان کا شا ید کا م ہی ہاتھ پکڑ کر اوپر لے جانے وا لا ہے، یا وہ قر یبی یار دو ست جو ناکامی میں تو بڑ ی محبت سے ملتے تھے اور اب وہی محبت طعنوں اور خو ف میں بد ل گئی ہے۔ ہر وقت ڈرا تے ہیں، کہ یہ کر و گے تو یو ں ہوجائے گا، پیچھے ہٹ جاؤ۔ ہا ں ایسے ایک شفیق ترین استا د ضرور ہیں، جو مثبت ہیں جو ہر حا ل میں آ گے بڑھنے اور اپنے مقصد پر لگے رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور ایسے چنددو ست بھی ہیں۔ قاسم صا حب رات کی تار یکی میں قہقہہ ما ر کر ہنسنے لگے۔ کہتے بس چند منفی رو یوں پر اتنی ما یو سی ہے؟ وہ کہنے لگے میں آ ٹھو یں جما عت تک فیل ہوا ہو ں، لگا تا ر فیل، والدین کے منت تر لے سے اگلی کلاس میں بٹھا دیا جا تا اور میں پھر فیل ہو جاتا۔ کہتے زند گی میں ایک ایسا لمحہ آ یا کہ مجھے رب کی ہدا یت آ گئی اور میں نے پڑھنا شروع کر دیا اور محنت شروع کر دی اور یہ مجھ سے ایک بابا جی نے کرا ئی، انہو ں نے ایک دن پانی میں مچھلی نکا لی اور میر ے سامنے تڑ پتی رکھ دی۔ کہنے لگے اسے میں جب پانی میں واپس نہیں ڈا لو ں گا، یہ اسی طر ح تڑ پتی رہے گی، پھر واپس ڈا ل کر کہنے لگے اب اسے پانی کی قدر ہو گی۔ تو جس تعلیم سے دو ر بھاگتا ہے، وہ معاشرے کا پانی ہے، اس میں تیر نا سیکھ، نہیں تو اسی طر ح تڑ پ تڑ پ کر مر جا ئے گا اور یہ نہ ہو کہ طعن جب تجھے قدر ہو، بہت دیر ہو چکی ہو۔ میں پڑھنے لگا، تو وہ میر ے دو ست جو میر ے ساتھی تھے، مجھے لعن طعن کرنے لگے، میں نو یں میں پا س ہوا تو کئی رشتہ دا ر نا را ض ہو گئے اور یو ں مجھے پہلی با راپنی قدر محسو س ہو ئی، میں اورمحنت کرنے لگا، کتا بیں لکھنے لگا، پہلی کتاب لکھی، جو میر ی بہت زیا دہ تحقیق اور کو شش کا مجمو عہ تھی تو وہی دو ست کہنے لگے کہ چھا پا مارا ہے، مجھے ہر طر ح سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، میں رکا نہیں اور آ ج میں ایک کامیاب آ دمی ہو ں، تیر ے ساتھ جو ہوتا ہے وہ پانی کی اصل قدر بتانے کے لیے غیب سے آنے والے لمحات ہیں، ان کی قدر کیا کر، یہ مایو سی نہیں ہے۔ تجھ میں رب کے شکر کے وٹامن کی کمی ہے۔ پھر انہوں نے مجھے ایک دو ست سے ملنے کا کہا جو ملک کی دو سر ی بڑی فار ما انڈسٹر ی کا بز نس یونٹ ہیڈ تھا۔ میں عر فا ن علی کو جانتا تھا، انہی نے قاسم علی شاہ صاحب سے میر ی پہلی ملا قات کر ائی تھی۔ عر فان کی کہانی مجھے ان مایوس لمحوں سے نکالنے کی بڑی سعی ثابت ہو ئی۔ عر فا ن کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب گھرمیں کھانے کو رو ٹی نہیں ہو تی تھی، میں کپڑے کی دکا ن پر کا م کر تا تھا، ایک با ر کپڑ ے کی دکان کے مالک نے ہا تھ پکڑ کر کہا، کہ پڑھائی نہیں چھو ڑ نی، یہ میر ی زند گی میں پہلا مثبت آ دمی تھا۔ پڑھائی نہیں چھو ڑی، کپڑے کی دکا ن پر محنت کرتے، سخت محنت کی عادت رگوں میں دا خل ہو گئی۔ میں نے ایف ایس سی کی، چھو ٹا سا میڈ یکل ریپ بنا اور ترقی کر نے لگا۔ ایک دن رات کو کلفٹن کر اچی کے پا س تین تلو ار چوک پر میں نئے ما ڈل کی ایک گا ڑی دیکھی، اسمیں پیچھے دو بچے تھے اور سامنے ایک خو بصورت بیو ی بیٹھی تھی۔ میر ے دل میں اس وقت عجیب سی کیفیت آ ئی، مجھے لگا کہ میں کہیں ان سے حسد نہ کر بیٹھوں، ان کو میر ی نظر نہ لگ جائے، میں نے ان کے لیے دعا کی اور ساتھ ہی میر ی کیفیت رشک میں بد ل گئی اور میں نے اپنے دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ ایک دن میں ان کی طر ح یہ سب اپنی محنت سے حا صل کرلو ں گا۔ میں فا ر ما میں ہی محنت کر تا رہا، جو حسد کرتے تھے، وہ طعنے دیتے رہے، تو ڑ تے رہے، بعض اوقا ت ایسے موقع بھی آ ئے کہ میں نے اپنے آ پ کو با لکل ختم پا یا، مگر بس لگارہا۔ ایک دن اپنے جد ید تر ین ما ڈل کی چا لیس لاکھ کی گا ڑی میں تین تلوار پر رکا، تو گا ڑی میں ا ہلیہ ساتھ تھیں،پیچھے دو بچے تھے۔ وہ ایک مو ٹر سا ئیکل سوا ر نو جو ان ہمیں دیکھ رہا تھا، میں، شا ید صرف میں اس کے دل کی کیفیات پڑھ سکتا تھا۔ میں اپنے اور اس کے لیے دونو ں کے لیے دعا کی اور گھر آ کر سجد میں گر گیا۔ مجھے حسد سے رشک تک کے سفر نے بچا لیا۔ عفان بھائی ہمارے جیسے معا شروں میں کسی بھی انسان کی کامیابی کے دو ہی راستے ہوتے ہیں، کہ حسد سے بچا جائے اور حسد کرنے والو ں کے لیے دعا کی جائے، اگر میں اس دن جب خو د مو ٹر سا ئیکل پر تھا، دعا نہ کرتا تو آ ج میں یہا ں نہ ہو تا اور اگر میں آ ج اس کے لیے دعا نہ کر تا تو رب تک میرا شکر کیسے پہنچتا؟ شاید یہی میر ی تر قی کا را ز ہے۔ رات کے آ خری پہر میں نے سخت مایوسی کے عالم میں اسی بالکونی میں کا فی دیر اپنے دوست قا سم علی شاہ صاحب سے با ت کی اور عر فان کے مو ضوع پر بھی بات کر تا رہا، نجانے کیو ں فجر سے کچھ دیر پہلے جب بارش کی چند بو ندیں چہر ے پر پڑ یں تو مجھے اپنا وہ چہر ہ جو حسد کی آ گ کے اثر میں اکثر جلتا محسو س ہو تا تھا، وہ عجیب سی ٹھنڈ ک محسو س کرنے لگا۔ میں کمرے میں آ کر سجد میں گر گیا اور رونے لگا۔ رب کا شکر ادا کرتے، مجھے اس بات کا شدیداحسا س ہونے لگا کہ وہ سکون جسے میں فقط کامیابی میں ڈھونڈ رہاتھا، اس میں شکر کی کمی تھی اور وہی شکر مجھے منفی لوگوں سے دو ر رکھے گا، حسد سے دو ر رکھے گا اور رشک کے قر یب کر دے گا، محنت اور کامیابی کے سفر میں قدم بو جھل ہونے لگیں تو انسا ن کو سمجھ جا نا چاہیے کہ اس سے رب کے حضور شکر میں کمی ہو گئی۔ رات کے آ خر ی پہر سے اجالے کی پہلی کرن کا سفر یوں تو فو ن پر کٹ گیا، مگر مجھے زند گی کا سب سے بڑا کامیابی کا راز دے گیا۔