اِن ہاؤس تبدیلی 543

اِن ہاؤس تبدیلی

دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت ‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اِن ہائوس تبدیلی کی کوشش چل رہی ہے۔ کل منگل کے روزامریکہ کے 45ویں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی‘ یعنیImpeachment Trial شروع ہو گا۔
46صفحات پر مشتمل فردِ جُرم‘ جسے امریکن کانگریس کی اصطلاح میں ٹرائل میمورنڈم کہا جاتا ہے ‘ تیار کیا گیا ۔ 60صفحات پہ پھیلی ہوئی اضافی Statement of Factsمیں صدرٹرمپ پر صدارتی عہدے سے ہٹائے جانے کیلئے دوجرائم کے ارتکاب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ پہلاجُرم! ڈونلڈ جے ٹرمپ نے 2020ء کا نیا صدارتی الیکشن جیتنے کیلئے غیر ملکی مددجبراً (extort)حاصل کی۔ تفصیلات کے مطابق صدر ٹرمپ نے یوکرائن کی اہم ترین سٹریٹجک فوجی امداد اور وائٹ ہائوس میں ملاقات کو leverageکے طور پر روکا۔ یوکرائن کی حکومت کو مجبور کیا کہ 2020ء کے الیکشن میں متوقع صدارتی امید وار جو بائیڈن کے خلاف بیٹے سمیت تفتیشی ایکشن کا اعلان کرے۔ دوسراجُرم! امریکن کانگریس کو پہلے جُرم کی تفتیش سے روکنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے انتظامی افسروں کو یوکرائن اور وائٹ ہائوس کے درمیان روابط کاریکارڈ مہیا نہ کرنے کا حکم دیا۔
دنیا کی پہلی جمہوریت برطانیہ کی پارلیمنٹ میںImpeachmentکی تاریخ کا آغاز سال 1376ء میں ہوا۔ چوتھے بیرن آف لیٹیمرلارڈ ولیم لیٹیمر (William Latimer) کا پہلی بار مواخذہ ہوا۔ دوسری دفعہ سال 1806ء میں فرسٹ وسکاونٹ لارڈ ہنری ڈنڈاس (Henry Dundas) آف میلویل مواخذے کی زد میں آئے‘ جس کے بعد برطانیہ نے ایسی کارروائیوں کو ترک کردیا اور محاسبے کے قانونی اور جمہوری طریقے چُن لیے۔انڈین ہسٹری میں گورنر بنگال وارن ہسٹینگز(Warren Hastings) کو برٹش پارلیمنٹ کے ذریعے impeach کرنے کی کوشش کی گئی ۔گورنر کا ٹرائل سات سال1788-1795ء تک جاری رہا اور فیل (Fail)ہوگیا۔
صدر ٹرمپ سے پہلے تین امریکی صدور کے خلاف مواخذہ کارروائی ہوئی۔پہلا‘ اینڈریو جوہنسن امریکہ کا 17واں صدر‘ جوصدر ابراہم لنکن کے قتل کے بعد نائب صدر سے 1865ء میں صدربنااور 1869ئتک اس عہدے پر فائز رہا۔ غیر تعلیم یافتہ صدر اینڈریو کے خلاف 1868ئمیںمواخذہ کارروائی شروع ہوئی ۔اینڈریو نے سیکرٹری آف وارایڈون سٹینٹن کو بر طرف کر کے آرمی جنرل گرانٹ کو اس کاچارج دیا۔ سینیٹ نے برطرفی اور نئی تعیناتی مسترد کر دی۔ جنرل گرانٹ اور ایڈون ‘ دونوں عہدے چھوڑنے سے انکاری ہو گئے۔یوں 24فروری1868ء کو مواخذے کی کارروائی کی اجازت ملی۔صدر پر Tenure of Office Act کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ 5مارچ کو ٹرائل شروع ہوا‘16مئی کو صدر اینڈریو اپنی صدارت بچانے میں کامیاب رہے۔37ویں امریکی صدررچرڈ نکسن سال1974ء میں مواخذہ کارروائی کے شکاربنے۔حالات کا اندازہ ہونے پر رچرڈ نکسن نے مواخذے کی کارروائی کی باضابطہ اجازت ملنے سے پہلے ہی 9اگست1974ء کو استعفیٰ دے کر اپنی جان چھُڑوا لی۔
42ویں امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف مواخذہ1999ء میںشروع ہوا۔بل لاء گریجویٹ تھے۔ مونیکا لیونسکی سکینڈل کی وجہ سے مواخذہ کارروائی نے بِل کو خوب بد نام کیا‘ مگر مواخذہ ناکام ہو گیا۔ بِل پر حلف اُٹھا کر جھوٹ بولنے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹیںڈالنے کا الزام تھا۔
حالیہ مواخذہ کارروائی کا انجام بھی پہلے جیسا لگتا ہے ۔ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی نے مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کے خلاف ووٹ دیا۔دوڈیموکریٹس بھی صدرکے ساتھ ہو ئے ۔ ٹرائل کامیاب بنانے کیلئے دو تہائی اکثریت کو صدرکے خلاف ووٹ ڈالنا ہو گا۔اگرٹرائل کامیاب ہو اتو وائس پریذیڈنٹ مائیک پنس46واں امریکی صدر بن جائے گا۔
ٹرمپ کی9 رکنی لیگل ٹیم میں کینتھ سٹار(Kenneth Starr) بھی شامل ہیں۔ یہ 1999ء والے مواخذے میں صدر بِل کلنٹن کے خلاف وکیل تھے۔اس ٹیم میں عالمی شہرت یافتہ ڈیفنس اٹارنی ایلن ڈرشووز(Alan Dershowitz) جو (O.J.Simpson) مشہور فُٹ بالر کے خلاف قتل کے مقدمے میں دفاع کیلئے بننے والی ڈریم ٹیم کے ممبر تھے۔ان کے علاوہ وائٹ ہائوس کونسل مسٹرجے سیکو لو (JaySekulow)‘ٹرمپ کے Personal وکیل PatCipollone اور رابرٹ رے لیگل ٹیم کو لیڈ کریں گے‘ جبکہ سابقہ اٹارنی جنرل فلوریڈا Ms. Pam Bondi اور جین ریسکن ٹیم کی مدد کریں گے۔ پیٹرک فِلبن اور مائیک پُرپُرا(Mike Purpura) ڈپٹی وائٹ ہائوس کونسلز بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔
صدر ٹرمپ کی لیگل ٹیم نے ہفتے کے روز الزامات کے رد میںچھصفحاتی جواب داخل کروایا ہے۔دفاعی جواب نے مواخذہ کارروائی کو پچھلے الیکشنزکو سبوتاژکرنے اورآئندہ الیکشنز میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔ٹرمپ کا جواب دلیرانہ ہے۔ 391ملین امریکی ڈالر امداد روکنے ‘ یوکرائنی صدر Volodymyr Zelensky کو جو اور ہنٹر بائیڈن کے خلاف تفتیش شروع کروانے کے الزام سے انکار نہیں کیا گیا۔جواب کہتا ہے ‘ صدر نے کوئی قانون نہیں توڑا‘ جو کیا وہ اُن کا اختیارتھا۔ سیاسی مفاد کیلئے نہیں بلکہ یوکرائن میں کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔ 25 جولائی کی فون کال کو Pefectly Legalاور امریکی مفادات کے عین مطابق کہا گیا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ امریکہ ہو یا برطانیہ یا پھر برٹش راج میں انڈیا ‘ جس حکمران کا بھی مواخذہ ہوا‘ وہ اسکندر مرزا یا نواز شریف کی طرح ڈیل لے کر ملک سے فرار نہیں ہوا۔ اپنے خلاف آنے والی چارج شیٹ کا دفاع کر کے ایک طرح کی تاریخ رقم کردی۔ پاکستان میں اِ ن ہائوس تبدیلی کی تاریخ ”کالے شا کالے ‘‘کتبوں سے بھری پڑی ہے۔بد بُودار ماضی کے گٹروں پر ایستادہ کتبے‘ جن پہ چھانگا مانگا‘ پلاٹ ازم‘ بھوربن آپریشن تو کہیںنقدی سے بھرے ہوئے بریف کیسزکی ہوش رُبا کہانیاں اُبل رہی ہیں یا پھر مالش و پالش کی داستانیں تحریر ہیں۔
عمران حکومت کے خلاف اِن ہائوس تبدیلی کیلئے تازہ ترین کوشش یکم نومبر2019ء کو شروع ہوئی‘ جس میں 3دن کے اندراندر عبوری حکومت کے قیام اور مِڈ ٹرم الیکشنز کی تاریخ تک سُنادی گئی۔اک سیاسی مولوی صاحب کی قیادت میں میں جمہوریت پسند‘ نظریاتی‘ ترقی پسند‘ قوم پرست‘ مذہب پرست‘ سارے ایک سٹیج پرجُت گئے۔ لبرلز اور زُعمِ تقویٰ کے غیر سیاسی کردار بھی اسی سٹیج پر سیاسی فنکاری کا مظاہرہ کرنے پہنچے۔ مگر وہ یخ بستہ رات تھی‘ جب اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں حلوے کی دیگ میں ریت ڈال کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ انہی فراریوںمیں سے کچھ مفرور لندن جا پہنچے۔ مجھے سیاسی شعور کے روزِ اوّل سے ہی پختہ یقین رہا ہے کہ پاکستان خالصتاًطبقاتی سماج ہے۔یہاں اِن ہائوس تبدیلی کی سیریز قومی نہیں بلکہ ہمیشہ ذاتی اور شخصی مفادات کے گرد گھومتی ہے‘ جس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ نہ تو کبھی کسی مواخذے کا کوئی ٹرائل میمورنڈم تیار ہوا اور نہ ہی کبھی سٹیٹ منٹ آف فیکٹس سامنے آئی۔ اس لیے جنرل ضیا کے زمانے میں نظامِ گورننس میں اِن ہائوس تبدیلی کیلئے ریفرنڈم کروایا گیا۔ حبیب جالبؔ نے کھُلی آنکھوں سے یہ ریفرنڈم یوں دیکھا۔ ؎
شہر میں ہُو کا عالم تھا/ جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ/ باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے/ اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے/ سچائی کا چہلم تھا
آج کھلی آنکھیں اِن ہائوس تبدیلی کے 2دعویداروں کو پھر دیکھ رہی ہیں۔اِن ہائوس تبدیلی کا پہلا طلبگار ہائوس کا رکن ہی نہیں۔ اِن ہائوس تبدیلی کا دوسرا دعویدار ہائوس تو کیا مُلک سے ہی فرار شدہ ہے۔ رمل نجوم اور Tarotکارڈ کھیلے تو جا سکتے ہیں ‘لیکن یہ وہ سکّہ رائج الوقت نہیں جو کبھی چل سکے۔