790

آدب محافل نعت اور ہماری ذمہ داریاں

بشکریہ روزنامہ پاکستان اسلام آباد
قارئین کی آسانی کے لئے اصل مسودہ بھی پیش خدمت ھے پڑھئے اورخوب شئرکیجیے.شکریہ*
آدب محافل نعت اور ہماری ذمہ داریاں
حضور ختمی مرتبت آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی علیہ السلام کی نعت وتوصیف بیان کرنا سننا اس کے لئے محفافل ومجالس کا اہتمام کرنا ، جہاں روحانی طمانیت اور تازگئ ایمان کا باعث ہے وہاں اکابرین امت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا محبوب مشغلہ اور سنت مبارکہ بھی ہے ۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں ایک امتی کی طرف سے سب سے قیمتی ھدیہ درود و سلام ہے ۔ درود وسلام کو دوسرے لفظوں میں نعت رسول کہتے ہیں ۔ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے درود وسلام سے محبوب کبریہ کی ذات گرامی کو نوازتے ہیں ۔ پھر اسی طرح امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ تم بھی درود و سلام بھیجو ۔ درود و سلام نعت ہی کی ایک خوبصورت صنف ہے ۔ ھدیہ نعت صحابہ کرام اور آئمہ امت رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور کی بارگاہ میں پیش کرتے چلے آئے ہیں ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کی تاریخ میں بڑے بڑے آئمہ وشعرا ، نعت رسول کو اپنے ملفوظات و تصانیف میں پیش کرنے کی سعادت پاتے آرھے ہیں ، اور آج تک اس روایت مقدسہ کو تسلسل کے ساتھ نبھایا جاتا رہا ہے ۔ الحمدللہ آج کے اس ظلماتی دور میں بھی ہمارے معاشرے میں مجالس نعت کو بڑے اہتمام سے منعقد کیا جاتا ھے ۔ دینی واعتقادی تاریخ کے اس انحطاطی دور میں محافل نعت کا انعقاد ایک مستحسن عمل ہے ان محافل کا جس شان و شوکت سے اہتمام کیا جاتا وہ قابل ستائش ہے ۔ مگر دیکھا یہ گیا ھے انسان اکثر اصل مقصد سے دور ہوجاتا ہے اور بے راہ روی کی راہ پر چل نکلتا ہے ۔
نعت ہے کیا ؟
نعت حضرت خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن وحدیث کے مطابق مدح سرائی کرنے کا نام ہے ۔ اس سے قلب و نظر کو جلا اورایمان کو تازگی نصیب ھوتی ہے ۔ نعت خواں ، رسول اللہ کی نعت شریف کو آداب نعت کے مطابق پڑھنے والے کو کہا جاتا ہے ۔ نعت خواں کا صحیح العقیدہ مسلمان ہونا ضروری ھے ۔ مسلمہ اورمستندکلام کو صحت کے ساتھ پڑھنے والا ھو ، نعت خواں کا کردار پاکیزہ ہو اور وہ باریش ھو ۔
فاسق معلن اور سنت کا تارک نہ ھو
نعت رسول مقبول پڑھنا ، سننا ، لکھنا جہاں بہت بڑی سعادت ہے وہاں یہ بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے ۔ امام اہل سنت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نےکیا خوب کہا ھے ،
” قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی ھے ،
کہ رھے آداب شریعت ملحوظ ۔
اور حافظ محمد افضل فقیر رحمت اللہ علیہ کہا کرتے تھے ،
“کیافکر کی جولانی ہے ، کیا عرض ہنر مندی ،
توصیف پیمبر ہے ، توفیق خداوندی” ۔
سیرت و شمائل رسول کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں آئمہ وعلماء نے یہ لکھا ہےکہ جس محفل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر ھواس محفل کے آداب ایسے ہی ہیں جیسے خود حضور سرور عالم اس محفل میں موجود ہوں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ کی حاضری کے آداب اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔
سورہ حجرات میں فرمایا کہ”میرے نبی کی بارگاہ میں اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلند نہ کرو بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز کو پست رکھو ۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر 3 میں فرمایا ” وہی لوگ ہیں جن کے دل کو تقوی کے لیے چن لیاگیا ہے جو میرے نبی کا خوب ادب کرتے ہیں”
چنانچہ سیرت اورشمائل کی کتابوں میں آئمہ اور علماء نے یہ لکھا ہے کہ جہاں رسول اکرم صلی اللہ وسلم کا ذکر مبارک ہو رہا ہو وہ مجلس ایسے ہی ھے جیسےحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف فرما ہوں تو پھر ایک آدمی کیسے چیخ کر ، چلا کر بات کرسکتا ہے. کیسے اسکی پیسوں کی طرف اور نوٹوں کی طرف توجہ جا سکتی ہے.
حفیظ تائب مرحوم نے کہا کہ
” ذہن میں رکھ آیہ لاترفعوااصواتکم
بات کرتبع پیمبرکی نزاکت دیکھ کر ” ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی نے حرم نبوی میں دو آدمیوں کو بلند آواز سے بولتے سنا تو ان سے فرمایا کیا تم جانتے ہو تم کہاں ہو ؟ پھر پوچھا تم دونوں کہاں کے رہنے والے ھو ؟ جواب دیا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تم مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں مار مار کے زخمی کر دیتا یا تمہیں سزا دیتا۔
ترمذی شریف میں ھے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے صحابہ انصار و مہاجرین کی محفل میں تشریف فرما ھوتے تو صحابہ میں سےکوئی بھی آپ کی طرف آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھ سکتا تھا ہاں صرف سیدنا صدیق اکبر اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کی طرف دیکھ سکتے تھے کیونکہ آپ علیہ السلام ان دونوں کی طرف تبسم کے ساتھ دیکھتے تھے ۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے آداب کے حوالے سے صحابہ کرام کے ادب کا عالم یہ تھا کہ آپ کے کاشانہ مبارک کے دروازے کو ناخن کے ساتھ دستک دیا کرتے تھے کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے ۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں میں چاہتا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی معاملے میں سوال کروں لیکن میں ادب وہیبت کی وجہ سے ایک عرصہ تک اپنا سوال نہ کرسکا ۔ قاضی عیاض علیہ الرحمہ نے شفا شریف میں حضور کے وصال کے بعد بھی آپ کے احترام و عظمت کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے ایک فصیل قائم کی ہے ، فرماتے ہیں ” جان لو حرمت نبویؐ اور ادب کے حوالے سےآپ علیہ السلام کی بارگاہ کا ابھی بھی وہی ادب ھے جو آپ کی ظاہری حیات میں تھا ” چنانچہ آپ کی تعظیم و توقیر کا پاس کرنا بعد از وصال بھی ایسے ہی لازم ہے جیسا کہ آپ کی ظاہری حیات میں ۔ اب کہیں بھی کسی محفل ومجلس میں آپ کے ذکر خیر کے وقت آپ کی حدیث اور سنت کے بیان کے وقت آپ کے نام نامی و سیرت طیبہ کے بیان کے وقت بھی وہی ادب ملحفوظ رکھنا چاہیے جو آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں تھا ۔
حضرت ابو ابراہیم التجیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر مومن پر واجب ہے کہ جب آپؐ کا تذکرہ مبارک اس کے سامنے ہو تو وہ خشوع و خضوع کا مظاہرہ کرے ، ادب بجا لائے ، کسی بھی قسم کی بیہودہ حرکات سے باز رہے اور آپ کے ہیبت و جلال کو ایسے ہی اپنے اوپر طاری کرے جیسا کہ اگر وہ آپ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوتا تو کیا کرتا ۔ اور ایسا ادب اختیار کرے جیسا اللہ نے ہمیں ان کا ادب سکھایا ھے ۔ قاضی یاد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں حضرت امام مالک کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک آتا تو ان کا رنگ فق ہو جاتا اور گلا رندھ جاتا یہاں تک کہ ہم نشینوں پر یہ گراں گزرنے لگتا۔ ایک دن آپ سے اس بارے میں کہا گیا تو آپ نے فرمایا جو میں نے دیکھا ھے وہ تم دیکھتے تو تم مجھ پر اعتراض نہ کرتے ۔ میں نے محمدبن المکندر کو دیکھا اور وہ قراءکے سردار تھے کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہم نے ان سے کسی حدیث کے بارے میں پوچھا ہو ھو اور وہ رو نہ پڑے ہوں ، یہاں تک کہ ہمیں ان پر رحم آتا تھا ۔ اور یقینا میں نے جعفر بن محمد کو دیکھا وہ نہایت خوش طبع اور خندہ رو تھے لیکن جب ان کے سامنے تذکرہ نبویؐ ھوتا تو انکا رنگ زرد ھوجاتا ، اور حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم جب نبی کریم نبی کریم صلی اللہ کا ذکر خیر کرتے تو ان کا رنگ یوں دکھائی دیتا جیسے ان کا خون ہی نچوڑ لیا گیا ہو اور ان کی زبان ہیبت نبویؐ کے باعث منہ کےاندر ہی خشک ہو گئی ھو ۔ اور میں عامر بن عبداللہ بن زبیرکی خدمت میں جایا کرتا تھا جب ان کے سامنے نبی کریم صلی علیہ وسلم کا ذکر خیر ہوتا تو وہ ایسے روتے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو باقی نہ رہتے ۔ اور میں نے زہری کو دیکھا ، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوش رہنے والے اور مجلسی آدمی تھے لیکن جب ان کے سامنے ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا تو وہ ایسے ہو جاتے جیسے ہم ان کو جانتے ہیں اور نہ ہی وہ ہمیں جانتے ہیں ۔ چنانچہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات گرامی سے کسی چیز یا مقام کو اگرمعمولی سی بھی نسبت ہوجائے تو اس کا اعزاز و اکرام اور تعظیم بہت ضروری ھے ۔ ادب رسالتؐ کے حوالے سے مولانا شھزاد مجددی نے اپنے رسالہ “آداب محافل نعت” میں حضرت احمد بن فضل کا بڑا ہی اھم مضمون لکھا ھے کہ شیخ احمد بہت بڑے زاہد اور مجاہد تیرنداز تھے اور وہ فرماتے ہیں میں نے کبھی بھی کمان کو اپنے ہاتھ سے بے وضو نہیں چھوا جب سے مجھے یہ خبرملی ھے کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کمان کو پکڑا تھا حالانکہ یہ وہ والا کمان نہیں جو حضور نے پکڑا بس نام کی مماثلت ھے اسی لئے اس کا اتنا ہی ادب ھے ۔
محافل کی حقیقی برکات کے حصول کے لئے ضروری ھے کہ ہم صحابہ کرام کی مجالس کا مطالعہ کریں اور اس کے مطابق ہم بھی بھرپور ادب ، احترام اورسادگی کے ساتھ محافل کا انعقاد کریں ۔
محافل کے انعقاد کے لئے اگر ہم یہ اصول بنا لیں کہ محفل کے انعقاد اورانتظام انسرام کے لیے کسی متبع شریعت عالم یا مفتی صاحب کی رہنمائی حاصل کر لیں تو آج کل کی محافل میں ھونیوالی بے احتیاطیوں سے بچا جاسکتا ھے ۔ نعت خواں ایسا ھو جو کم ازکم ترجمہ قرآن تو جانتا ھو ۔ نعت خوانی کے دوران لایعنی حرکتوں سے پرہیز کیا جائے ۔ نعت ، گانے کی طرز پہ نہ پڑھی جائے ۔ نعت کودف یا کسی بھی قسم کے میوزک کی دھن پر پڑھنے سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔
*غلامان رسول محافل میلاد ونعت ضرور سجائیے مگرذکر رسول کے آداب کو ہرحال میں ملحوظ رکھئے.ان مبارک محافل کو تبلیغ واشاعت دین اور معاشرتی اصلاح کاذریعہ بنائیے.یہ اس وقت ھوگا جب ہم ان محافل کو شعوری طور پرانعقادکریں گے.شعوری طور پہ محافل کے خوش نصیب منتظمین کو چاہئے کہ ان پاکیزہ محافل کو وعظ ونعت فروشوں اور جذباتی,خوشامدی نقیبان سے محافل کو دور اور پاک رکھئے.
اللہ تعالی شعور ونظریاتی طور پہ تمام اداب کو ملحوظ رکھتے ھوئےمحافل کا انعقادکرنے والوں کواپنی اور اپنے حبیب لبیب کی محبت واطاعت کی سعادت سے مالامال فرمائے.
محمدنعیم جاویدنوری