934

عصمت خاتم الانبیاؐء ڈاکٹر سید ثاقب اکبر چئیرمین البصیرہ

عصمت خاتم الانبیاؐء(۱)
نبوت کی ضرورت اور حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے نبوت عامہ کے لیے عصمت کے دلائل بدرجۂ اتم رسول اکرم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صادق آتے ہیں۔ہم یہاں پر قرآن حکیم کی اس آیۃ مجیدہ کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا(۱)
اے ایمان والو اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو وہ تمھارے لیے
قرار دے دے گا۔
’’فرقان‘‘ حق و باطل میں فرق اور تمیز کرنے کو کہتے ہیں۔جب عام مومنین کو تقویٰ اختیار کرنے کے نتیجے میں یہ صلاحیت حاصل ہوجاتی ہے تو مومنوں اور متقیوں کے امام الائمہ اور سید المرسلین کے لیے درجۂ فرقان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ایک عام مومن کو بھی مقامِ فرقان حاصل ہوجائے۔تو اس سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ حق کا راستہ ترک کرکے جان بوجھ کر باطل کا راستہ اختیار کرے گا،چہ جائے کہ سید الانبیاؐء ۔
رسول اکرمؐ کی مطلق اطاعت کا حکم
قرآن حکیم میں بہت سی ایسی آیات ہیں جو آنحضرتؐ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں ایسی آیات بھی شامل ہیں جو آپؐ کی بلااستثناء اورمطلق اطاعت کا حکم دیتی ہیں،مثلاً
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ(۲)
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول اوراپنے میں سے اولوالامر کی پس اگر کسی شے میں تمھارے درمیان تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دو۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (۳)
جس نے رسول ی اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اس کے علاوہ دیکھیے سورہ تغابن آیت ۱۲۔سورہ آل عمران۱۳۲،نساء۶۹،آل عمران۳۲،وغیرہ
ان آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسولؐ کی اطاعت مطلق ہے یہاں تک کہ رسول ہی کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ہے نیز یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ اگرکسی مسئلے میں اہل ایمان میں کوئی تنازع یا اختلاف پیدا ہوجائے تو اس میں بھی آخری فیصلہ رسولؐ ہی کا قرار پائے گا۔یہ آیات اس لحاظ سے آنحضرتؐ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں کہ اگر فرض کیا جائے کہ(معاذ اللہ) آپؐ سے خلافِ عصمت کوئی کام سرزد ہوسکتا ہو تو پھر اس میں بھی آپؐ کی پیروی اوراطاعت کا حکم منجانب اللہ فرض کیا جائے گا جبکہ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ کی طرف سے معصیت میں کسی بھی شخص کی اطاعت کا حکم دیا جائے۔
بعض آیات میں ’’ط و ع‘‘ کے بجائے ’’ت ب ع‘‘ کا مادہ استعمال کیا گیا ہے۔یعنی اطاعت کے بجائے اتباع کا کلمہ استعمال کیا گیا ہے۔یہ بھی پیروی ہی کا مفہوم دیتا ہے مثلاً:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(۴)
کہیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو پھر میری پیروی کرواللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
اس میں بھی رسول اللہؐ کی مطلق اتباع کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اللہ سے محبت کا دعویٰ اس وقت تک درست ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کوئی شخص آنحضرتؐ کی اتباع نہ کرے اور اگر کوئی شخص مطلق طور پر آپ ؐ کی اتباع کاراستہ اختیار کرلے تو وہ اللہ کامحبوب بن جائے گا۔گویا محبوب پروردگار بننے کے لیے آنحضرتؐ کی مطلق اطاعت ضروری قرار دی گئی ہے۔
رسول اکرمؐ تمام انبیاء پر گواہ ہیں
قرآن حکیم میں آنحضرتؐ کو تمام انبیاء پر گواہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:
فَکَیْفَ اِذَاجِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِءْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًا(۵)
پس اُس وقت کیسا ہوگا جب ہر امت میں سے ہم گواہ لائیں گے اور آپ کو ان (سب گواہوں) پر بطور گواہ لے کر آئیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ ایک عام گواہ کے لیے بھی عدالت شرط ہے۔ اس آیت میں رسول گرامی اسلامؐ کو تمام انبیاء پر روز قیامت گواہ کے طور پر پیش کیے جانے کی خبر دی جارہی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمام انبیاء معصوم ہیں اور معصوموں کے اوپر جو ہستی گواہ ہو اُسے ہر لحاظ سے اکمل ہونا چاہیے۔اس کی وضاحت استاد جوادی آملی نے بہت خوبصورتی سے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
آنگاہ اوباید معصومانہ برھمۂ جزئیاتی کہ در جھان امکان، در حیطۂ انسانیت می گذرد ومربوط بہ ھمۂ امم ہست، شہادت بدھد، ھمۂ رسالتھا، خلافتھا، نبوتھا ولایتھا زیر پوشش شہادت شہید الشھدا است کہ وجود مبارک انسان کامل، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم است و در حیطۂ این شہادت مطلقہ نہ جھل را راھی است ونہ در حرم امن این شہادت بیکران سھو و نسیان را منزلگاہی! زیرا او مظھر’’اللہ‘‘ واسماء حسنای اوست۔(۶)
اس وقت ضروری ہے کہ آپ جہانِ امکان کی ان تمام جزئیات کی معصومانہ گواہی دیں جو انسانیت کے حیطے اور دائرے میں آتی ہیں اور تمام امتوں سے مربوط ہیں۔ تمام رسالتیں، تمام خلافتیں، نبوتیں اور ولایتیں شہید الشھدا کی شہادت کے ماتحت ہیں کہ جو انسان کامل یعنی رسول اکرمؐ کا وجود مبارک ہے۔ شہادت مطلقہ کے اس دائرہ کار میں جہل کے لیے راستہ ہے اور نہ اس کے بے کراں شہادت کے حرمِ امن میں سہو و نسیان کے لیے کوئی مقام ہے کیونکہ وہ اللہ اور اُس کے اسمائے حُسنی کا مظہر ہے۔
زیر نظر آیہ مجیدہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان احادیث مبارکہ کو بھی پیش رکھنا مفید ہے:
i۔ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا:
اول ماخلق اللہ نوری(۷)
اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا۔
ایک مفسر اس حدیث کے حوالے سے لکھتے ہیں:
المؤید بقولہ تعالیٰ قُلْ اِِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ (۸)فھذہ الآیۃ تدل علی ان محمداً(ص) اول الکل وجوداً وان کان خاتم الرسل زماناً ۔(۹)
اس حدیث کی تائید اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی کرتاہے:’’کہیے اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے (اس کی)عبادت کرنے والوں میں سے ہوتا۔‘‘پس یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محمدؐ وجود کے اعتبار سے سب سے پہلے ہیں اگرچہ آپ زمانے کے اعتبار سے خاتم الرسل ہیں۔
ii۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے:
کنت نبیّا وآدم و بین الماء والطین(۱۰)
میں نبی تھا اور آدم ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھا۔(۱۱)
جو وجود مبارک سب سے پہلے ہو اور پھر خاتم الرسل ہو، وہی تمام امت کے گواہوں پر شاہد ہوسکتا ہے۔
اپنی امت پر گواہ
جہاں قرآن حکیم نے آنحضرتؐ کو دیگر امت کے نبیوں پر گواہ قرار دیا گیا ہے وہاں اپنی امت پر بھی گواہ قرار دیا ہے جیسا کہ دیگر نبی اپنے اپنے مقام پر اپنی اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا(۱۲)
اس طرح ہم نے تمھیں امت وسط قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور پیغمبر تم پر گواہ ہوں۔
یہ آیت بھی آنحضرتؐ کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔یہ بات یاد رہے کہ آپ کی امت میں اعلیٰ سے اعلیٰ شخصیتیں موجود ہیں۔ ایسی عظیم ہستیوں کی اس امت میں کمی نہیں جو عدالت کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔ظاہر ہے آنحضرتؐ کی عدالت کا درجہ ان سب سے مافوق ہے اور عصمت درحقیقت عدالت ہی کے بلند ترین درجے کا دوسرا نام ہے۔ حقیقت کے ظاہری درجے پر اسی طرح شہادت دینا جیسا کہ کسی کے علم میں ہے عدالت کا مصداق ہے جبکہ کسی بھی امرکے ظاہر و باطن کو جاننا اور عین اسی علم کے مطابق گواہی دینا عصمت کا تقاضا ہے۔
آنحضرتؐ کی زندگی میں اسوۂ حسنہ
آنحضرتؐ کی ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بہترین اور خوبصورت نمونہ قرار دیاہے۔جیسا کہ ارشاد پروردگار ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (۱۳)
یاد رہے کہ ’’حسن‘‘ کے مقابلے میں ’’قبح ‘‘ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ کی ساری زندگی میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا راستہ انسان کی زندگی میں معنوی اور باطنی حسن پیدا کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کا راستہ ’’قبح‘‘کے وجود میں آنے کا باعث بنتا ہے۔اس لحاظ سے یہ آیہ مجیدہ آنحضرتؐ کی عصمتِ مطلقہ پر دلالت کرتی ہے۔
رسول اللہؐ کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے
آنحضرتؐ جب اہل ایمان سے بیعت لیتے تھے تو آپ کا ہاتھ اوپر ہوتا تھا اور نیچے بیعت کرنے والے کا ہاتھ ہوتا تھا۔آپؐ کے اس طرح سے بیعت لینے پر آپ کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا ہے۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
اِِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَاَیْدِیْہِمْ(۱۴)
جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں اُن کے ہاتھوں کے اوپر(دراصل) اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
اس آیت سے آنحضرتؐ کا وجود مظہر الٰہی قرار پاتا ہے۔ اس طرح سے واضح طور پر یہ آیت آنحضرتؐ کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔
آنحضورؐ صراط مستقیم پر ہیں
سورہ یٰسٓ میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
یٰسٓO وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِO اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَO عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍO(۱۵)
یٰسٓ قرآن حکیم کی قسم ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اور صراط مستقیم پر ہیں۔
یہاں پر اللہ تعالیٰ قرآن حکیم کی قسم کھا کر آپؐ کے صراط مستقیم ہونے کی شہادت دے رہا ہے اور یہ شہادت بغیر کسی قید و شرط کے مطلق طور پر دی جارہی ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں بھی قرآن حکیم میں ایک مقام پر یہی بات اپنے پیغمبرحضرت ہودؑ کی زبانی بیان فرماتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ اِلَّا ھُوَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱۶)
(حضرت ھودؑ اپنی قوم سے کہتے ہیں) یقیناً میرا بھروسا اس اللہ پر ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے چلنے پھرنے والی کوئی چیز ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ نے اسے پیشانی کے اوپر کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔یقیناً میرا پروردگار صراط مستقیم پر ہے۔
صراط مستقیم پر ہونے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جو شخص اللہ کی گواہی کے مطابق صراط مستقیم پر ہے اس کے ہاں کجی،ٹیڑھ پن اور انحراف کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ انحراف صراط مستقیم پر ہونے کے منافی ہے۔گناہ اور اللہ کی نافرمانی دراصل صراط مستقیم سے انحراف ہی ہے۔ لہٰذا جس ہستی کے بارے میں اللہ یہ فرما دے کہ وہ صراط مستقیم پر ہے اس کی زندگی میں راہ حق سے انحراف یا اللہ کی نافرمانی کی کامل طور پر نفی ہوجاتی ہے۔اللہ کے صراط مستقیم پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے سارے نظام خلق و امر میں کہیں کوئی کجی اور خرابی نہیں ہے۔اُس کا سارا نظام عدل پر کارفرما ہے۔انبیاء کے بارے میں اس کا انتخاب بھی اسی نظام عدل کے ماتحت ہے۔اُس نے کسی ایسے شخص کو اپنی نمائندگی نہیں سونپی جو اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم سے بھٹکا دے اور انھیں انحراف کے راستے پر لے جائے۔اللہ کے یہ بندے جنھیں اُس کا نبی ہونے کا شرف حاصل ہے ان کا کام عدل کے راستے پر اللہ کے بندوں کی راہنمائی کرنا ہے۔اُن کی راہنمائی چاہے قولی ہو اور چاہے عملی اس میں انحراف اور کجی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان آیات مجیدہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضرتؐ کا وجود مسعود دراصل آئینہ خدا نمااور مظہر حق ہے۔ تاہم استاد جوادی آملی کے بقول اللہ کا صراط مستقیم پر ہونا بالذات اور اس کے رسول کا صراط مستقیم پر ہونا بالعرض ہے۔اللہ ظاہر ہے اورآنحضرتؐ اس کا مظہر ہیں۔(۱۷)
کمالِ معارف کے حامل
آنحضرتؐ علوم ومعارف کی حد کمال پر فائز ہیں۔اس پر قرآن حکیم کی یہ آیت شاہد ہے۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ (۱۸)
آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تم پر اس دین اسلام کے ساتھ راضی ہو گیا۔
گذشتہ تمام انبیاء پر علوم ومعارف کے نزول کا جو سلسلہ جاری تھا آنحضرتؐ پر پہنچ کر وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا۔آپؐ پر اسرار و رموز الٰہی کا بدرجۂ کمال منکشف ہونا آپؐ کے روحانی اور باطنی کمال کا اظہار ہے۔اسرار الٰہی کا حامل ہونا ظرف کی مطابقت کا متقاضی ہے۔ظرف جتنا گہرا اور وسیع ہوگا معارف کا حصول بھی اتنا ہی گہرا اور وسیع ہوگا۔آپؐ پر معارف کا درج�ۂ تمام وکمال تک جا پہنچناجو آپؐ کے باطنی کمال کی شہادت دیتا ہے اورایسا ہونا اُسی درجے کے تزکیے اور پاک باطنی کا غماز ہے یہی دوسرے لفظوں میں عصمت کے درجۂ کمال سے عبارت ہے۔
آنحضرتؐ کارحمۃ للعالمین ہونا
قرآن حکیم میں آنحضرتؐ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا ہے۔
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱۹)
اس مقام پر عالمین کے معنی کا تعین آنحضرتؐ کے بارے میں دیگر آیات کو پیش نظر رکھ کر ہی کیا جانا چاہیے۔یہاں ہم خاص طور پر آپ کے شہید الشہدا ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے مطابق آپؐ تمام انبیاء پر شہید اور گواہ ہیں لہٰذا عالمین کا مفہوم اولین و آخرین پر محیط ہے۔
اس آیہ مجیدہ کے مفہوم پر غور کرنے کے لیے ’’رحمت‘‘ کے معنی کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔چنانچہ رِحْم و رَحِمٌ عورت کے بطن کے اُس حصے کو کہتے ہیں جس میں بچہ پروان چڑھتا ہے۔ ہم اپنی روز مرہ گفتگو میں ’’رحم مادر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔رحم مادر میں بچہ نہ فقط پرورش پاتا ہے بلکہ محفوظ طریقے سے پرورش پاتا ہے۔ لغت کے مختلف ماہرین نے اس کا یہی معنی بیان کیا ہے۔چنانچہ زبیدی کہتے ہیں:
’’الرحم‘‘ اسباب القرابۃ واصلھا الرحم التی ھی منبت الولد(۲۰)
اس میں رُحْمٌ بھی بولا جاتا ہے۔(۲۱)
’’الرحمۃ ‘‘کا معنی بیان کرتے ہوئے زبیدی کہتے ہیں:
نحلۃ ما یوافی المرحوم فی ظاہرہ وباطنہ ادناہ کشف الضر وکف الاذی واعلاہ الاختصاص برفع الحجاب (۲۲)
وہ عطیہ جورحمت کیے جانے والے کی ظاہری و باطنی کمی کو پورا کر دے۔اس کا کمترین درجہ نقصان اور تکلیف کو دور کرنا ہے اوراعلیٰ درجہ حجابات کو ہٹا دینا
ہے۔
رحمت کے اس لغوی پس منظر کو جاننے کے بعد ہم بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرتؐ کا وجود درحقیقت عالمین کے لیے ایک ایسے ظرف کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ہر چیز اپنی قابلیت کے مطابق نشوونما پاتی ہے اور جس میں جتنی قابلیت ہو آپ کا وجود اس کے ظاہر و باطن کی اُتنی ہی کمی کو پورا کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ساری بشریت جسے فاعل مختار قرار دیا گیا ہے کو کمال تک پہنچنے کے لیے آپؐ ہی سے کسب فیض کرنا ہے۔آپؐ کے اسوہ حسنہ ہونے کے ہونے کے مفہوم کو بھی یہاں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔رحمت کے معنی کو پوری طرح سامنے رکھیں تو رحمۃ للعالمین کے وجود کا سب سے کم فائدہ عالمین کے لیے نقصان اور تکلیف کو دور کرنا ہے اور سب سے اعلیٰ فائدہ حجابات کو ہٹا دینا ہے۔آپؐ کا اسوۂ حسنہ اختیار کرنے سے انسان کے لیے کم ازکم فائدہ یہ ہے کہ وہ دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور اعلیٰ اور بلند مرتبہ فائدہ یہ ہے کہ اس کے سامنے سے حجابات ہٹ جائیں اور وہ حقائق و معارف کی دنیا تک جا پہنچے اور نتیجۃً محضر الٰہی اس کے لیے مشہود ہوجائے۔
یہاں رحمت للعالمین کے اخروی فوائد کی طرف اشارہ کیا جانا اس امر کے منافی نہیں کہ دنیا میں بھی آپؐ کا وجود کم ازکم ایذا اور تکلیف سے انسانی معاشرے کی نجات کا ضامن ہے اور اس کی باطنی اور معنوی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا بھی مگر اس کے لیے انسانوں کو اپنے ارادے اوراختیار کو بروئے کار لانا ہوگا۔
اس معنی کو اگر سامنے رکھا جائے تو جسے عالمین کی ظاہری و باطنی کمی کو پورا کرنا ہے اور جس کے ظرف وجودی میں عالمین کو نشوونما پانا ہے اس میں خود نقص کا پایا جانا اس کے مقصد خلقت سے تضاد رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ عصمت کبریٰ کے درجے پر فائز ہیں۔
آنحضرتؐ کا خاتم النبیین ہونا
قرآن شریف میں پیغمبر گرامی اسلامؐ کو خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے:
وَمَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (۲۳)

آنحضرتؐ کا خاتم النبیین ہونا درحقیقت آپ کے سید النبیین اور افضل الانبیاء ہونے کا مفہوم رکھتا ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بھی محفل میں صدر مجلس کی حیثیت کو سامنے رکھ کر دیکھیے کہ محفل جس کے گرد گھومتی ہے اور جس کی
اجازت اور منشاء کے مطابق بات کی جانا درست ہوتا ہے اور جسے سب سے آخر میں خطاب کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی محفل کی صدارت کرنے والی شخصیت کو بظاہر سب حاضرین مجلس پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ دنیاوی محفلوں میں ممکن ہے کہ یہ منصب اہلیت کی بنیاد پر نہ دیا جائے لیکن جب یہ فیصلہ اللہ رب العزت کو کرنا ہے تو پھر عدالت اور اہلیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس اعتبار سے آنحضرتؐ اگرچہ سب سے آخری نبیؐ ہیں لیکن اپنے معنوی اور باطنی کمالات کے لحاظ سے سید الانبیاءؐ ہیں۔اس اعتبار سے معصومین کی مجلس میں آپ کی حیثیت سید المعصومین کی ہے۔
آنحضورؐ خلق عظیم کے حامل ہیں
قرآن حکیم میں آنحضرتؐ کو خلق عظیم کا حامل بھی قرار دیا گیا ہے:
وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۲۴)
انسان کے خلق اور اخلاق کا معیار اُس کی معرفت الٰہی اورمعرفت ذات ونفس کا پرتو ہوتا ہے۔ جس قدر انسان کو باطنی طہارت اور تزکیہ نصیب ہو اس کا اخلاق بھی اتنا ہی پاکیزہ ہوتا ہے اور معرفت کی جس قدر گہرائی ہے اخلاق بھی اتنا گہرا اور جڑیں پکڑے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ اخلاق جب معاشرے میں اور دیگر مخلوقات کے ساتھ برتاؤ میں ظہور کرتا ہے تو اس کی عظمت و وسعت معلوم ہونا شروع ہوتی ہے۔آنحضرتؐ کا خلق عظیم کے مقام پر فائز ہونا اور اس کی سند پروردگار کی طرف سے عطا ہونا آپ ؐکے باطن کی اعلیٰ ترین درجے کی طہارت اور بندگان خدا کے ساتھ آپؐ کے بہترین سلوک اور آپ ؐکی عظمت کردار کی شہادت دیتا ہے۔ یہ شہادت خلق کے منافی کسی بھی عمل اور فکر کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے دوسرے لفظوں میں صاحب خلق عظیم سے خلاف عصمت کسی ارادے اورفکر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
رفعتِ ذکر
اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکے ذکر کو سربلندی اور رفعت عطا کی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(۲۵)
اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ۔
طائر روح کے بال و پَر اگر گرد وغبار سے اٹے ہوں تو وہ فلک معنویت کی طرف پرواز نہیں کر سکتا۔آپ کے ذکر کو بلندی اور آپ کی ذات کو سر بلندی نصیب ہونا اس امر کی گواہی کے لیے کافی ہے کہ آپ کی روح ہر طرح کی آلائش سے پاک ہے اور عصمت کا یہی مطلب ہے۔
قرآن حکیم میں آپ کا مقصد بعثت یوں بیان فرمایا گیا ہے:
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (۲۶)
جیسا کہ ہم نے تمھارے درمیان تم ہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت کرتا ہے ، تمھیں پاک کرتا ہے، تمھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ کچھ سکھاتا ہے جس کا تمھیں پہلے علم نہ تھا۔
ایک عام سی عقل رکھنے والا انسان بھی یہ بات جانتا ہے کہ معلم کو طالب علم سے درجۂ علم میں افضل ہونا چاہیے اور جسے اللہ نے انسانوں کے تزکیہ باطن کے لیے مامور کیا ہے اُسے خود سب سے بڑھ کر تزکیہ باطن کا حامل ہونا چاہیے نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا(۲۷)
جسے حکمت عطا کی گئی اُسے خیر کثیر عطا کی گئی۔
جب کہ آنحضرتؐ کی ذات والا صفات کو تعلیم حکمت کے لیے مامور فرمایا گیا۔ انھیں جس قدر خیر کثیر میسر ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔دارائے کتاب ہونے کے لیے بھی خاص درجے کی باطنی صلاحیت درکار ہے اور حکمت کے اعلیٰ ترین درجے کا حامل ہونے کے لیے بھی اعلیٰ ترین باطنی طہارت کی ضرورت ہے اوراللہ کی نافرمانی اس سب کے منافی ہے لہٰذا آپؐ عصمت کے ممکنہ بالا ترین درجے پر فائز ہیں۔
آنحضرتؐ کی عصمت کے مختلف پہلو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے بارے میں بعض سوالات یا اشتباہات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہ وضاحت کردیں کہ انبیاء کی عصمت کے متعدد پہلو ہیں:
۱۔ وحی کے ذریعے صحیح طور پر علوم و معارف کا حاصل اور اخذ کرنا۔
۲۔ نبی جو کچھ وحی کے ذریعے سے حاصل کرے اسے یاد رکھے اور فراموش نہ کرے۔
۳۔ جو کچھ وحی کی صورت میں حاصل کرے اسے بلاکم و کاست پہنچا دے۔
جب ہم ان تینوں پہلوؤں کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کا جائزہ لیتے ہیں تو قرآن حکیم میں ہر پہلو سے واضح طور پر آیات موجود پاتے ہیں۔ذیل میں ہم انہی حوالوں سے چند آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
صحیح طور پر علوم ومعارف کا حاصل کرنا: قرآن حکیم کی متعدد آیات اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ آنحضرتؐ نے وحی کی صورت میں پروردگار سے جو علوم و معارف حاصل کیے ان میں ذرہ بھر غلطی اوراشتباہ کا امکان نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی (۲۸)
جسے انھوں نے دیکھا اس کے بارے میں ان کے دل نے دھوکا نہیں کھایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے بغیر کسی خطا یا اشتباہ کے پروردگار سے معارف اخذ کیے۔اسی سورۃ کی ایک اور آیت بھی اس حوالے سے ہماری مدد کرتی ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی(۲۹)
نہ نظر چوکی اور نہ آگے بڑھی۔
اس آیت کی دلالت کے لیے بھی مندرجہ بالا آیت کے مفہوم کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ آنحضرتؐ نے حقائق کو دیکھنے ، سمجھنے،حاصل کرنے اور بیان کرنے میں کسی قسم کی کوئی خطا یا لغزش نہیں کی۔
قرآن حکیم کے بلند مرتبہ حقائق جو آنحضرتؐ پر نازل ہوئے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍO مَّرْفُوْعَۃٍ مُطَہَّرَۃٍ O بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ O کِرَامٍ بَرَرَۃٍ (۳۰)
وہ ایسے صحیفوں میں ہے جو بہت عزت دار ہیں،بلند درجے کے پاک وپاکیزہ ہیں۔جنھیں عزت دار اور نیک کردار ہاتھوں نے لکھا ہے۔
یہ بلندمرتبہ حقائق آنحضرتؐ پر نازل ہوئے اور آپؐ نے انھیں اخذ کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ گویا اس پہلو سے آپؐ معصوم ہیں۔
آنحضرتؐ سے سہوونسیان کی نفی:قرآن حکیم کی متعدد آیات میں آنحضرتؐ سے سہوونسیان کی نفی کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
سَنُقْرِءُکَ فَلاَ تَنْسآی O(۳۱)
ہم آپ کو پڑھا دیں گے پس آپ بھولیں گے نہیں۔
سہو ونسیان کی ایک وجہ انسان کا غافل ہوجانا بھی ہے۔ یہ غفلت خاص طور پر دلوں کی غفلت سے عبارت ہے جب کہ آنحضرتؐ تو اپنے بارے میںیہاں تک ارشاد فرماتے ہیں:
تنام عینای ولا ینام قلبی (۳۲)
میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں لیکن دل نہیں سوتا۔
جس ہستی کا سوتے ہوئے دل جاگتا رہے اس کے بارے میں سہو ونسیان کا امکان ہرگز درست نہیں ہوسکتا۔سہو ونسیان کی تو فرشتوں سے بھی نفی کی گئی ہے چہ جائیکہ مسجودالملائکہ جس کا سب سے اہم اور افضل مصداق سید المرسلین کی ذات گرامی صفات ہے۔حضرت علیؑ فرشتوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
لا یغشاھم نومُ العیون ولا سھوُالعقول ولا فترۃُ الابدان ولا غفلۃ النسیان(۳۳)
فرشتوں کی نہ آنکھیں سوتی ہیں نہ اُن کی عقلیں خطا کرتی ہیں نہ اُن کے بدن خستگی کا شکار ہوتے ہیں اور نہ انھیں نسیان کی غفلت لاحق ہوتی ہے۔
بلاکم وکاست پہنچانا:آنحضرتؐ نے اللہ تعالیٰ سے جو کچھ علوم و معارف حاصل کیے، انھیں یاد رکھا اور پھر انھیں بلا کم وکاست بندگان خدا تک پہنچا دیا جیسا کہ قرآن حکیم کی مندرجہ ذیل آیات سے ظاہرہوتا ہے:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی O اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی O(۳۴)
آپ اپنی ہوائے نفس سے کلام نہیں کرتے بلکہ آپ جو کچھ کہتے ہیں سب اللہ کی طرف سے آپ پر وحی کیا گیا ہوتا ہے ۔
خود اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرما دیا تھا کہ ان پر جو کچھ وحی کی جائے گی اُسے خود آپؐ ہی کے توسط سے بندوں تک پہنچانا اللہ ہی کے ذمے ہے۔ جیسا کہ سورۃ قیامت کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے:
اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ O(۳۵)
بلاشبہ ہمارے ذمہ ہے اسے جمع کرنا اور اسے پڑھوانا۔
چند وضاحتیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے باطنی حقائق ایسے ہیں جن کی کنہ اور حقیقت ہم نہیں جان سکتے جیسے نبوت کی ماہیت، وحی کی حقیقت اور جبرائیل کی ماہیت وغیرہ۔ خود قرآن حکیم نے ہمیں غیب پر جو ایمان لانے کی دعوت دی ہے وہ بھی اس حقیقت کی غماز ہے کہ جہان باطن اور عالم غیب کے امور کو ہم نہیں جان سکتے البتہ اشاروں، کنایوں اور علامتوں سے انسان ذہنی اور روحانی طور پر ان امورکے کچھ قریب جاسکتا ہے۔ہم نے سید المرسلین پیغمبر گرامی اسلامؐ کے مقام وعظمت اور عصمت صغریٰ کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا ہے اُس کی حیثیت بس اشاروں کنایوں کی سی ہے ورنہ آپؐ کے مقام کی حقیقت تک رسائی خواب است وجنوں است و محال۔ بقول غالب:

علاوہ ازیں بعض آیات اور روایات کے پیش نظر آنحضرتؐ کی عصمت کے بارے میں جو سوالات یا اشتباہات ذکر کیے جاتے ہیں ان کا جواب دیتے ہوئے یا تاویل کرتے ہوئے مذکورہ بالا آیات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
نیز نبوت عامہ کی ضرورت و عصمت کے بارے میں جو عقلی اور نقلی دلائل پیش کیے جا چکے ہیں انھیں آنحضرتؐ کی عصمت کوسمجھنے اور جاننے کے لیے بنیاد بنایا جانا ضروری ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)

حوالہ جات
۱۔ ۸۔انفال:۲۶ ۲۔ ۴۔نساء:۵۹
۳۔ ۴۔نساء:۸۰ ۴۔ ۳۔آل عمران:۳۱
۵۔ ۴۔نساء:۴۱
۶۔ جوادی،عبداللہ،آملی:تفسیر موضوعی قرآن مجید،سیرت علمی و عملی حضرت رسول اکرمؐ(قم،مرکز نشراسراء،۱۳۷۴ش ھ)ج۹،ص۲۸
۷۔ دیکھیے:
حلبی،علی بن برہان الدین :سیرۃ حلبیہ،ج۱،ص ۲۴۰۔
قندوزی،شیخ سلیمان بن ابراہیم حنفی: ینابیع المودۃ،ج۳،ص ۲۱۴۔
مجلسی ،محمد باقر:بحارالانوار،ج۱،ص ۹۷،کتاب العقل،باب ۲،ح۷
ابن ابی جمہور، عوالی اللئالی،ج۴،ص۹۹،ح ۱۴۰
۸۔ ۴۳۔زخرف:۸۱
۹۔ جزائری ،سید طیب موسوی: حاشیہ تفسیر قمی(قم، ایران،موسسہ دارالکتاب للطباعت والنشر،ط ثالثہ،۱۴۰۴ھ)ج۱،ص۱۷
۱۰۔ یہ حدیث مسند احمد کے علاوہ مستدرک حاکم نیشا پوری میں بھی روایت ہوئی ہے۔ امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے بھی اپنے انتخاب میں اسے باقی رکھا ہے۔ مسند احمد وغیرہ کی عبارت یوں ہے کہ راوی کہتا ہے:
قلت: یا رسول اللہ متی کنت نبیاً،
قال: کنت نبیاً و آدم بین الروح والجسد
امام ترمذی نے اسے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے۔ ترمذی کی عبارت کچھ یوں ہے:
قالو: یا رسول اللہ متی وحیث لک النبوۃ؟
قال: و آدم بین الروح والجسد
مزید دیکھیے:
ابن شہر آشوب،مناقب آل ابی طالب ،ج۱،ص ۱۸۳،فصل فی اللطائف۔
الایجی،المواقف،ج۳،ص ۳۴۰۔
امام فخرالدین رازی،تفسیر کبیر،جلد۶،ص ۲۱۳،ذیل آیت تلک الرسل۔
ابی حیان اندلسی، تفسیر البحرالمحیط،ج۴،ص ۲۶۳
آلوسی،تفسیر الآلوسی،ج۷،ص۱۴۰
قندوزی،ینابیع المودۃ،ج۱،ص۴۶
فیض کاشانی،تفسیر صافی، ج۵،ص۳۷
ابن ابی جمہور،عوالی اللئالی،ج۴،ص۱۲۱،ح۲۰۰
۱۱۔ ان دونوں احادیث کے لیے مزید دیکھیے: تفسیر ابن عربی ج۱،ص۴۱۸، سورہ کہف کی آیت ۸و ۹ کی تفسیر کے ذیل میں۔
۱۲۔ ۲۔بقرہ :۱۴۳ ۱۳۔ ۳۳۔احزاب:۲۱
۱۴۔ ۴۸۔فتح:۱۰ ۱۵۔ ۳۶۔یٰسٓ:۱تا۴ ۱۶۔ ۱۱۔ھود:۵۶
۱۷۔ جوادی،عبداللہ،آملی:تفسیر موضوعی قرآن مجید،سیرت علمی و عملی حضرت رسول اکرمؐ(قم،مرکز نشراسراء،۱۳۷۴ش ھ)ج۹،ص۵۱
۱۸۔ ۵۔مائدہ :۳ ۱۹۔ ۲۱۔انبیاء:۱۰۷
۲۰۔ زبیدی:تاج العروس(لبنان،بیروت ،دارالفکر للطباعۃ والنشروالتوزیع،ط ۱۹۹۴)ج۱۶،ص ۲۷۶
۲۱۔ اصفہانی ،راغب:المفردات ، مادہ رح م کے ذیل میں
۲۲۔ زبیدی:تاج العروس(لبنان،بیروت ،دارالفکر للطباعۃ والنشروالتوزیع،ط ۱۹۹۴)ج۱۶،ص ۲۷۴)
۲۳۔ ۳۳۔احزاب:۴۰ ۲۴۔ ۶۸۔قلم:۴
۲۵۔ ۹۴۔انشراح:۴ ۲۶۔ ۲۔بقرہ:۱۵۱
۲۷۔ ۲۔بقرہ:۲۶۹ ۲۸۔ ۵۳۔نجم: ۱۱
۲۹۔ ۵۳۔نجم: ۱۷ ۳۰۔ ۸۰۔عبس:۱۳تا۱۵
۳۱۔ ۸۷۔اعلیٰ:۶ ۳۲۔ نہج الفصاحہ،شمارہ ۱۱۸۰
۳۳۔ نہج البلاغہ،خطبہ۱ ۳۴۔ ۵۳ ۔نجم: ۴و۳ ۳۵۔ ۷۵۔قیامۃ:۱۷

اپنا تبصرہ بھیجیں